پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اینٹی ریپ آرڈیننس 2020 کی منظوری دے دی ہے۔ آرڈیننس میں جنسی زیادتی کے مجرم کو نامرد بنانے کے لیے اس کی رضا مندی کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ انسدادِ ریپ آرڈیننس سے خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے معاملات نہ صرف جلد نمٹانے میں مدد ملے گی بلکہ جنسی زیادتی کے ملزمان کے تیز ٹرائل اور کیسز جلد نمٹانے کے لیے ملک بھر میں اسپیشل کورٹس کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ یہ خصوصی عدالتیں چار ماہ کے اندر جنسی زیادتی کے کیسز کو نمٹائیں گی۔
آرڈیننس کے مطابق مقدمے کی تحقیقات کے حوالے سے کوتاہی برتنے اور غلط معلومات فراہم کرنے والے پولیس اہلکاروں یا سرکاری ملازمین کو تین سال قید کی سزا اور جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔
خصوصی عدالتیں اور اینٹی ریپ کرائسز سیل
آرڈیننس کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے وزیرِ اعظم کی جانب سے ایک فنڈ تشکیل دیا جائے گا۔ اس فنڈ کو خصوصی عدالتوں کے قیام اور دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے فنڈ میں گرانٹ دی جائے گی۔ مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایجنسیوں، نجی کمپنیوں اور افراد سے بھی امداد لی جائے گی۔
وزیرِ اعظم کی جانب سے ملک بھر کے سرکاری اسپتالوں میں ضرورت کے مطابق 'اینٹی ریپ کرائسس سیلز' تعمیر کرنے کا حکم دیا جائے گا جن میں تمام طبی سہولتیں دستیاب ہوں گی۔
'اینٹی ریپ کرائسس سیل' کی سربراہی علاقے کا کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کرے گا۔ اینٹی ریپ کرائسس سیل میں سرکاری اسپتال کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ (ایم ایس) کے علاوہ ایک آزاد سپورٹ ایڈوائزر اور ضلع کے ڈی پی او کو بھی شامل کیا جائے گا۔
'اینٹی ریپ کرائسس سیل' کو ریپ سے متعلق کسی بھی ذریعے سے تحریری یا زبانی درخواست موصول ہو تو اسے چھ گھنٹے کے اندر 'میڈیکو لیگل ایگزامینیشن' کرنا ہو گا۔ تمام ثبوت جمع کرنے کے بعد انہیں محفوظ کرنا، فرانزک کرانا، ایف آئی آر درج کرانا بھی اینٹی ریپ کرائسس سیل کی ذمہ داری ہو گی۔
پولیس اسٹیشن کو جنسی زیادتی سے متعلق اطلاع ملنے کے فوراً بعد 'اینٹی ریپ کرائسس سیل' کو آگاہ کرنا ہو گا۔
وزیرِ اعظم کی جانب سے خصوصی کمیٹی کی تجاویز کی روشنی میں 'اینٹی ریپ کرائسس سیلز' کو ہدایات جاری کی جائیں گی۔ 'لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی' کی جانب سے مظلوم کی قانونی معاونت بھی کی جائے گی۔
آرڈیننس کے تحت مقرر کیے گئے فنڈ کے ذریعے قانونی معاونت کے اخراجات اٹھائے جائیں گے۔ قانونی معاونت کے لیے ایک خصوصی کمیٹی وزارتِ انسانی حقوق کی مشاورت سے وکلا کا پینل تشکیل دینے کی منظوری دے گی۔
متاثرہ افراد کی شناخت محفوظ
آرڈیننس کے تحت متاثرہ فرد اور گواہان کی حفاظت کے لیے ایک نظام ترتیب دیا جائے گا جس کے تحت متاثرہ فرد اور گواہوں کی سیکیورٹی کے انتظامات کے علاوہ ان کی شناخت خفیہ رکھی جائے گی۔ آڈیو اور ویڈیو لنک کے ذریعے بیانات قلم بند کیے جائیں گے۔
متاثرہ فرد اور گواہان کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے علاوہ ان کی مالی معاونت بھی کی جائے گی۔ قانونی ورثا کی معاونت کی جائے گی۔ دارالامان اور سیف ہاؤس کی سہولتیں بھی مہیا کی جائیں گی۔
خصوصی کمیٹی کی تشکیل
وزارتِ قانون و انصاف کی جانب سے ریپ کیسز کے حوالے سے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ یہ خصوصی کمیٹی آرڈیننس پر عمل درآمد کے لیے وفاقی اور صوبائی وزارتوں، ڈویژن، ایجنسیوں اور اتھارٹیز تک رسائی حاصل کر سکے گی۔
خصوصی کمیٹی میں وفاقی، صوبائی وزارتوں کے افراد کے علاوہ طبی اور قانونی شعبے کے افراد، ریٹائرڈ جج، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین اور سول سوسائٹی کے نمائندگان کو بھی شامل کیا جائے گا۔
خصوصی کمیٹی کی جانب سے وزارتِ انسانی حقوق سے مشاورت کے بعد سول سوسائٹی یا این جی اوز کے ممبران کو بطور آزاد سپورٹ ایڈوائزر کمیٹی میں شامل کیا جائے گا۔
خصوصی کمیٹی کے پاس وفاقی اور صوبائی وزارتوں اور دفاتر سے معلومات وصول کرنے کا اختیار ہو گا۔ یہ کمیٹی عدم تعاون کی صورت میں معاملے کو متعلقہ حکام کے سامنے اٹھا سکے گی۔ مقدمے کے خاتمے کے بعد عدالت مجرم کو متاثرہ فرد کو جرمانے کی رقم کا کچھ حصہ ادا کرنے کا حکم دے سکے گی۔
جرم میں ملوث افراد کا ڈیٹا بیس
اس آرڈیننس کے ذریعے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ نادرا کی مدد سے زیادتی کے مقدمات میں ملوث تمام افراد کا ڈیٹا بیس اکٹھا کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے تمام اضلاع سے ایسے کیسز میں ملوث افراد کے نام نادرا کو بھجوائے جائیں گے اور کسی بھی دستاویز حاصل کرنے کے وقت ان ملزمان کے حوالے سے یہ معلومات دستیاب ہوں گی۔
کسی نئے کیس کے سامنے آنے کی صورت میں بھی ان ملزمان کے ڈیٹا سے مدد حاصل کی جائے گی اور عادی مجرمان کی شناخت کا عمل آسان ہو سکے گا۔
اس کام کے لیے نادرا کو ذمہ دار دی جائے گی جو آئندہ چند ماہ میں ڈیٹا تشکیل دے گا۔
'کوئی بھی نامرد ہونے پر راضی نہیں ہو گا'
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن سرور باری کہتے ہیں کہ 'کاسٹریشن' (نامرد کرنے) کا عمل ایک بہت سخت سزا ہے اور دنیا کے بہت کم ممالک میں اس پر عمل ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں جو موجودہ صورتِ حال ہے، اس میں یہ ضروری ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنسی زیادتی کے کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ ایسے قوانین متعارف کرائے جائیں جن سے اس جرم کو روکا جا سکے۔
سرور باری نے کہا کہ اگر کسی مجرم کو نامرد بنانے سے پہلے اس کی رضا مندی پوچھی جائے گی تو وہ کبھی بھی اس کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ لہٰذا اس بارے میں حکومتی ردعمل بالکل درست ہے کہ اس سزا کو عبرت کے طور پر استعمال کیا جائے۔ ورنہ اس سزا کا کسی کو کوئی ڈر نہیں ہونا تھا۔