پاکستان میں خواتین پر ہونےوالے ظُلم و ستم تھم نہ سکے اور آج بھی عورت اپنے حقوق کیلئے معاشرے کی ٹھوکریں کھاتی دکھائی دیتی ہے۔ انہی میں سے ایک کراچی کے علاقے بن قاسم کی رہائشی 45 سالہ شبانہ بھی ہے جو حُکومت سے اپنی سرپرستی مانگ رہی ہے جسے اسکے ہی بھانجے کے ساتھ ناجائز تعلقات کا الزام عائد کرکے خاندان والوں نے "کاری" قراردیدیا ہے اور اسکے قتل کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اس الزام کے بعد شبانہ نے کراچی میں خواتین اور بچوں کے لئے کام کرنے والی نجی تنظیم " مددگار ہیلپ لائن" کا رخ کیا۔ شبانہ کی فریاد کو حکومتی ایوانوں تک پہنچانے کیلئے نجی تنظیم کی جانب سے پریس کانفرنس منعقد کی گئی جہاں شبانہ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ "میرے شوہر محمد نواز اور دیور عبد الخالق نے ذاتی تنازعے کی خاطرمیرے کردار پر گھناؤنا الزام عائد کیا ہے اور بیٹے کیطرح عزیز بھانجے فہیم احمد کے ہمراہ کاروکاری قرار دے کر قتل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ شبانہ کا مزید کہنا ہے کہ"مجھے کاروکاری کی بھینٹ چڑھنے سے بچایا جائے اور حُکومت مدد فراہم کرے۔"
شبانہ کے مددگار ہیلپ لائن پہنچنے پر نجی تمظیم مددگار ہیلپ لائن کی جانب سے شبانہ کو جان سے مارنے کی دھمکی کا پولیس مقدمہ درج کروا دیا گیا ہے۔ اسکے باوجود قانونی اداروں کی جانب سے عملدرآمد نہ ہونے کے باعث اسکے خاندان والوں کو شوہر کی جانب سے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
مددگار نیشنل ہیلپ لائن کے سربراہ ضیاء اعوان ایڈو کیٹ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’’قوا نین پر عملدر آمد میں ناکامی اور سرکاری تحفظ سے محرومی کے باعث پاکستان میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
ضیاء اعوان کا مزید کہنا ہے کہ "ان واقعات کی ذمہ دار حکومتی اداروں کی نااہلی اور قوانین پرعملدرآمد میں کوتاہی ہے۔‘‘ ضیاء اعوان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کاروکاری کے مقدمات دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کئے جانے چاہئیں جبکہ کارا اور کاری قرار دئیے گئے افراد کی زندگی بچا نے کیلئے حکو متی شیلٹر ہاﺅس قائم کیا جائے۔ انہوں نے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ از خود نوٹس لیتے ہوئے ملک بھر میں کاروکاری کے خلاف درج کئے گئے مقدمات پر پولیس سے رپورٹ طلب کریں۔
پاکستان میں بدقسمتی سے طویل عرصے گزرنے کے بعد بھی ان واقعات کےسدِباب کے لئے موئژ پیش قدمی نہیں کی گئی جس کے باعث ان واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔
"کاروکاری" کے واقعات میں اضافہ
مددگار ہیلپ لائن کے ڈیٹا بیس کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2012ء میں پاکستان میں 188 بچوں اور 316 خواتین کو اس قبیح رسم کی بھینٹ چڑھا کر کاروکاری قرار دیا گیا۔ جبکہ رواں سال 2013 میں ماہ جون تک 121 خواتین کو کاری قرار دیا جا چکا ہے،جن میں سے 31 خواتین کو بد کردار ظاہر کرتے ہوئے قتل کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے 7 کیسز کراچی میں رپورٹ ہوئے۔ رواں سال 2013 میں ماہ جون تک 93 بچوں کو کاروکاری قرار دیا گیا، جس میں صوبہ پنجاب میں 41، صوبہ سندھ میں 32، صوبہ بلوچستان میں 13 اور صوبہ سرحد میں 7 بچے شامل تھے۔ جن میں سے 59 بچے قتل کر دئیے گئے۔ چھ ماہ کے دوران ان واقعات کے اعداد و شمار ظاہر کر تے ہیں کہ گزشتہ سال کی نسبت ان واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جو حکومت کے لئے لمحہ فکریہ اور دنیا بھر میں پاکستان کے لئے باعث ِبدنامی ہے۔
اس الزام کے بعد شبانہ نے کراچی میں خواتین اور بچوں کے لئے کام کرنے والی نجی تنظیم " مددگار ہیلپ لائن" کا رخ کیا۔ شبانہ کی فریاد کو حکومتی ایوانوں تک پہنچانے کیلئے نجی تنظیم کی جانب سے پریس کانفرنس منعقد کی گئی جہاں شبانہ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ "میرے شوہر محمد نواز اور دیور عبد الخالق نے ذاتی تنازعے کی خاطرمیرے کردار پر گھناؤنا الزام عائد کیا ہے اور بیٹے کیطرح عزیز بھانجے فہیم احمد کے ہمراہ کاروکاری قرار دے کر قتل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ شبانہ کا مزید کہنا ہے کہ"مجھے کاروکاری کی بھینٹ چڑھنے سے بچایا جائے اور حُکومت مدد فراہم کرے۔"
شبانہ کے مددگار ہیلپ لائن پہنچنے پر نجی تمظیم مددگار ہیلپ لائن کی جانب سے شبانہ کو جان سے مارنے کی دھمکی کا پولیس مقدمہ درج کروا دیا گیا ہے۔ اسکے باوجود قانونی اداروں کی جانب سے عملدرآمد نہ ہونے کے باعث اسکے خاندان والوں کو شوہر کی جانب سے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
مددگار نیشنل ہیلپ لائن کے سربراہ ضیاء اعوان ایڈو کیٹ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’’قوا نین پر عملدر آمد میں ناکامی اور سرکاری تحفظ سے محرومی کے باعث پاکستان میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
ضیاء اعوان کا مزید کہنا ہے کہ "ان واقعات کی ذمہ دار حکومتی اداروں کی نااہلی اور قوانین پرعملدرآمد میں کوتاہی ہے۔‘‘ ضیاء اعوان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کاروکاری کے مقدمات دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کئے جانے چاہئیں جبکہ کارا اور کاری قرار دئیے گئے افراد کی زندگی بچا نے کیلئے حکو متی شیلٹر ہاﺅس قائم کیا جائے۔ انہوں نے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ از خود نوٹس لیتے ہوئے ملک بھر میں کاروکاری کے خلاف درج کئے گئے مقدمات پر پولیس سے رپورٹ طلب کریں۔
پاکستان میں بدقسمتی سے طویل عرصے گزرنے کے بعد بھی ان واقعات کےسدِباب کے لئے موئژ پیش قدمی نہیں کی گئی جس کے باعث ان واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔
"کاروکاری" کے واقعات میں اضافہ
مددگار ہیلپ لائن کے ڈیٹا بیس کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2012ء میں پاکستان میں 188 بچوں اور 316 خواتین کو اس قبیح رسم کی بھینٹ چڑھا کر کاروکاری قرار دیا گیا۔ جبکہ رواں سال 2013 میں ماہ جون تک 121 خواتین کو کاری قرار دیا جا چکا ہے،جن میں سے 31 خواتین کو بد کردار ظاہر کرتے ہوئے قتل کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے 7 کیسز کراچی میں رپورٹ ہوئے۔ رواں سال 2013 میں ماہ جون تک 93 بچوں کو کاروکاری قرار دیا گیا، جس میں صوبہ پنجاب میں 41، صوبہ سندھ میں 32، صوبہ بلوچستان میں 13 اور صوبہ سرحد میں 7 بچے شامل تھے۔ جن میں سے 59 بچے قتل کر دئیے گئے۔ چھ ماہ کے دوران ان واقعات کے اعداد و شمار ظاہر کر تے ہیں کہ گزشتہ سال کی نسبت ان واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جو حکومت کے لئے لمحہ فکریہ اور دنیا بھر میں پاکستان کے لئے باعث ِبدنامی ہے۔