ایسے افراد کے بچوں میں خودکشی کا رجحان زیادہ پایا گیا ہے، جنہوں نے اپنی زندگی کے کسی مقام پر خودکشی کی کوشش کی ہو۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق، خودکشی کی کوشش کرنے والے ماں باپ کے بچوں میں خودکشی کا تناسب تین سے چار گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ خود کشی کی کوشش کرنے یا خود کشی کرنے میں سب سے زیادہ عمل دخل انسان کے ڈیپریشن میں مبتلا ہونے یا خراب موڈ کا ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کے خودکشی کی طرف مائل ہونے میں دیگر بہت سے عوامل بھی کارفرما ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں ابھی سائنس مکمل طور پر آگہی نہیں رکھتی۔
ماہرین کے مطابق اس بات کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر کسی خاندان میں ماضی میں کسی نے خود کشی کی ہو یا خود کشی کرنے کی کوشش کی ہو تو یہ رجحان اس خاندان کی اگلی نسلوں میں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔
اس سے قبل ماضی میں اس حوالے سے کی جانے والی تحقیقوں میں یہ امر سامنے آیا تھا کہ جن خاندانوں میں پہلے سے کسی نے خود کشی کی ہو تو اس خاندان میں مزید خودکشی کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ ماضی کی ان تحقیقوں میں موڈ میں تبدیلیوں کی فیملی ہسٹری کو ایک بڑی وجہ قرار دیا گیا تھا۔ مگر اس تحقیق میں شرکت کرنے والوں کا محض ایک سے دو سال کا ڈیٹا جمع کیا گیا تھا۔
اس حالیہ تحقیق کے لیے پروفیسر ڈیوڈ برینٹ نے جو کہ یونیورسٹی آف پٹس برگ سے بطور ذہنی امراض کے علاج کے پروفیسر کے طور پر منسلک ہیں، اپنی ٹیم کے ساتھ ایسے افراد کے بچوں کے موڈ کے بدلتے رجحانات پر تحقیق کی جنہوں نے خود کشی کی تھی۔ اس تحقیق کا مقصد ماں باپ کے خود کشی کرنے سے بچوں پر اس کے اثرات اور ممکنہ طور پر خود کشی کی جانب راغب ہونے کے درمیان تعلق اور ربط کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھا۔
1997ء سے 2012ء تک، دس سے پچاس برس کے 701 لوگوں کو چھ برس تک مانیٹر کیا گیا۔ اس تحقیق میں شامل 334 بچے ایسے لوگوں کے بچے تھے جن کو موڈ میں یکدم تبدیلی اور ڈپریشن جیسے مسائل کا سامنا تھا جن کے باعث ان لوگوں نے اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مقام پر خود کشی کرنے کی کوشش کی۔
اس تحقیق سے ڈاکٹر برینٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خودکشی کرنے کی کوشش کرنے والے افراد کے بچوں میں خودکشی کا رجحان دیگر افراد کی نسبت پانچ گنا زیادہ تھا۔