رسائی کے لنکس

آئی ایم ایف قرض کی تفصیلات: 'پاکستان کو اب بھی چیلنجز کا سامنا ہے'


عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی معیشت پر کنٹری رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آنے والے برسوں میں معیشت کو اب بھی بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو گزشتہ برسوں میں سیلاب، یوکرین جنگ سے اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے چیلنجز کا سامنا رہا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرونی اور داخلی مالیاتی حالات سخت ہونے کے ساتھ دیگر امور کی وجہ سے معیشت کو بڑے جھٹکے لگے ہیں۔ ان جھٹکوں نے معاشی حالات کو بگاڑ دیا اور کرونا کے بعد کی بحالی کے عمل کو روک دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افراطِ زر میں اضافہ ہوا، غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر بہت کم سطح تک گر گئے اور مالی اور بیرونی دباؤ شدید ہو گئے ہیں۔

مالی سال 2023 میں کچھ کوششوں کے باوجود، مشکل معاشی، سماجی اور سیاسی ماحول کے ساتھ ناکافی بیرونی فنانسنگ نے اس ضمن میں کسی خاطر خواہ پیش رفت کو روک دیا ۔

فنڈ نے اپنی رپورٹ میں قرار دیا ہے کہ پاکستان کے معاشی چیلنجز پیچیدہ اور کثیر جہتی ہیں اور خطرات بھی غیر معمولی ہیں۔ ان کو حل کرنے کے لیے متفقہ پالیسیوں کے مستقل نفاذ کی ضرورت ہے۔

'پاکستان کو بیرونی قرضے چکانے کے لیے بھاری فنڈنگ کی ضرورت ہے'

رپورٹ کے مطابق پاکستان کو موجودہ مالی سال اور آنے والے برسوں میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقم کی کافی ضرورت ہے۔

رپورٹ کے مطابق روپے پر کافی زیادہ دباؤ محسوس کیا جا رہا ہے اور اس کی وجہ سے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے کچھ ہی دور رکھا ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس نچلی درجہ بندی سے اوپر پہنچنے اور پاکستان کو اپنے قرضوں کو پورا کرنے کے قابل بنانے کے لیے کثیر جہتی اور دو طرفہ تعاون اہم ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو مالیاتی اداروں اور قرض فراہم کرنے والے دیگر ممالک سے انہیں ری شیڈول کرانا ضروری ہے۔

فنڈ کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال پاکستان کو 28 ارب ڈالر، اگلے سال 27 ارب ڈالر اور مالی سال 2025 میں 31 ارب ڈالر کے لگ بھگ بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہو گی۔

'گزشتہ مالی سال معاشی نمو گراوٹ کا شکار رہی'

گزشتہ مالی سال کی معاشی کارکردگی کا حوالہ دیتے ہوئے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ملکی اور بیرونی حالات کی وجہ سے معیشت مزید گراوٹ کا شکار ہوئی۔

ایسے حالات میں حکومت کو قرضوں کی واپسی کے لیے درآمدات پر سخت پابندیاں عائد کرنی پڑیں اور پھر سیلاب کے اثرات سے بھی معیشت کو نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔

فنڈ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ 2023 کے عارضی تخمینوں کے مطابق معیشت کی شرح نمو 0.3 فیصد کے برعکس اسٹاف کے اندازوں کے مطابق معشیت کی ترقی کی شرح منفی 0.5 فیصد رہنے کی توقع ہے۔

فنڈ کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ بھی عہد کیا ہے کہ وہ یکم جولائی سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے فنڈ حکام کو مطلع کر دے گی اور یہ کہ اب وہ ٹیکس معافی یا ٹیکس میں کوئی رعایت نہیں دے گی۔

ایک اور شرط کے مطابق، انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ایکسچینج ریٹ کے درمیان اوسط فرق کسی بھی مسلسل پانچ کاروباری دنوں کے دوران 1.25% سے زیادہ نہیں ہو گا۔

فنڈ کے مطابق توانائی جس میں بجلی اور گیس دونوں ہی شامل ہیں کا شعبہ پاکستان میں مالی نقصان کی ایک بڑی وجہ رہا ہے۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی متعدد کوششیں ان کے براہ راست اور بڑی سمجھے جانے والی سماجی قیمت کی وجہ سے ناکام ہو چکی ہیں۔

معیشت کا بنیادی مسئلہ محصولات کی کمی

رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لاہور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں ایسوی سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر علی حسنین کا کہنا ہے کہ حقیقت میں پاکستانی معیشت کا بنیادی مسئلہ محصولات کی کمی کا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مسئلے پر قابو پانے کے لیے انہوں نے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس لگانا کوئی تیکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور صوبوں کو سیاسی حل نکالنے کے لیے مزید ذمے داریاں سونپنے کی ضرورت ہے۔

اصلاحات اور طویل مدتی مستقل پالیسیوں کی ضرورت

معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو برآمدات میں اضافے اور توانائی کے شعبے میں مسائل کے حل کی ضرورت ہے۔

اُن کے بقول حکومت کے تحت چلنے والے کاروباری اداروں کی نج کاری اور سب سے بڑھ کر آب و ہوا کی تبدیلی سے نبردآزما ہونے کے لیے فوری اصلاحات اور طویل مدتی مستقل پالیسیوں کی ضرورت ہے۔

بڑی سیاسی جماعتوں کی تحریری یقین دہانیاں

فنڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف کے عملے نے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کیں۔

رپورٹ کے مطابق اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے مقاصد اور کلیدی پالیسیوں پر وضاحت کی۔ فنڈ کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں نے پروگرام کے مقاصد اور پالیسیوں کے لیے تحریری حمایت کا اظہار کیا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG