بھارتی پنجاب کے وزیر اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کرتار پور راہداری کی تعمیر کے افتتاح کی تقریب میں شرکت کیلئے لاہور پہنچ چکے ہیں۔ اُنہوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ’’یہ راہداری بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک پُل کا کردار ادا کرے گی اور دشمنی کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گی‘‘۔
بھارت سے روانگی سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ’’اس راہداری کیلئے آواز پاکستان سے اُٹھی ہے اور یہ امن و خوشحالی اور ان گنت امکانات کی راہداری ہو گی‘‘۔
تاہم، بھارت میں مختلف طبقہٴ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے سدھو کے دورہٴ پاکستان پر متضاد آرا کا اظہار کیا ہے۔
سماجی کارکن مانی رنجن سنگھ نے ٹویٹ کیا کہ ’’سدھو سربجیت سنگھ اور سوریو کالیا کو بھول گئے ہیں، جنہیں پاکستان میں وحشیانہ طور پر ہلاک کر دیا گیا اور سدھو پھر بھی پاکستان کے ساتھ وفاداری دکھا رہے ہیں‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ اس سے پہلے سدھو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ پاکستان کے مقابلے میں جنوبی بھارت کو بالکل نہیں جانتے، کیونکہ پاکستان کے ساتھ زبان اور کھانا مشترک ہے۔
اُدھر بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امرندر سنگھ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اُنہوں نے اپنی کابینہ کے وزیر نوجوت سنگھ سندھو کو مشورہ دیا تھا کہ وہ کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کیلئے پاکستان جانے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ تاہم، اُن کے اصرار پر اُنہوں نے سدھو کو جانے کی اجازت دے دی۔
اُنہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سدھو مدھیہ پردیش میں تھے جب اُنہوں نے اُنہیں پاکستان جانے کا ارادہ ترک کرنے کیلئے کہا تھا۔ تاہم، سدھو نے کہا کہ وہ پہلے ہی دعوت قبول کر چکے ہیں اور یہ اُن کا ذاتی دورہ ہو گا۔ امرندر سنگھ نے کہا کہ سدھو نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں اُن سے دوبارہ بات کریں گے۔ لیکن، سدھو نے بعد میں اُن سے کوئی بات نہیں کی اور وہ پاکستان چلے گئے۔
ایک شہری نے ٹائمز انڈیا کی اینکر نویکا کمار کو لکھا ہے کہ سدھو کو اپنے پروگرام میں مت بلانا وہ آپ کو گرم تیل میں پکوڑے کی طرح تل دے گا۔
ایک بھارتی شہری سودھی رنجن مشرا نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا، ’’سدھو نے کیپٹن امرندر سنگھ کے صائب مشورے کو قبول نہیں کیا اور پاکستان چلے گئے۔ اُنہوں نے عمران خان کو فرشتہ تک کہ دیا۔ ‘‘
ایک اور بھارتی شہری پرشرٹ ٹیپاتھی نے ٹویٹ کیا، ’’سدھو آپ نے ملک کو اور اُن لوگوں کو شدید طور پر مایوس کیا ہے جنہوں نے آپ کو ووٹ دیا تھا۔ آپ نے اپنے فینز کو بھی ناراض کیا ہے۔ لہذا، واپس بھارت نہ آئیں۔‘‘
ایک اور بھارتی شہری کی ٹویٹ کچھ یوں تھی، ’’سدھو کو صرف یہ چاہئیے کہ لوگ اُن کے بارے میں باتیں کرتے رہیں اور وہ میڈیا کی نظروں میں رہیں۔ برکھا دت بھی اُن کیلئے یہی کام کرنے کیلئے ساتھ گئی ہیں۔‘‘
منیشا گپتا لکھتی ہیں، ’’کوئی اس قدر بے شرم کیسے ہو سکتا ہے۔ میں بوفرز اور رفائل سکینڈل کو بھول سکتی ہوں۔ لیکن، اپنے فوجیوں کی قربانیوں کو نہیں بھول سکتی۔ سدھو، پہلے میں آپ کی فین تھی۔ لیکن، اب جس سدھو کو میں دیکھ رہی ہوں وہ کسی بھی ہندوستانی کیلئے رول ماڈل نہیں ہو سکتا۔ میں شرمندگی محسوس کر رہی ہوں کہ میں آپ کو پسند کرتی رہی۔‘‘
سماجی کارکن سشی شیکھر جھا لکھتے ہیں، ’’سدھو کا شکریہ جن کی عمران خان کے ساتھ دوستی کے باعث طویل عرصے سے جاری یہ مسئلہ حل ہوا۔‘‘