لکھنؤ کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے 1992 میں بابری مسجد انہدام کے معاملے میں سینئر بی جے پی لیڈر اور سابق نائب وزیر اعظم ایل کے آڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور ونے کٹیار سمیت 12 ملزموں کے خلاف ان کی موجودگی میں مجرمانہ سازش کے الزامات طے کر دیے۔
اس سے قبل جب عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو تمام ملزموں کی طرف سے ضمانت کی درخواست پیش کی گئی جو کہ بیس بیس ہزار روپے ذاتی مچلکے کی بنیاد پر منظور کر لی گئی۔ اس کے بعد انھوں نے سازش کے الزامات سے بری کرنے کی درخواست کی جو مسترد کر دی گئی۔
مذکورہ لیڈروں کے علاوہ جن کو ملزم بنایا گیا ہے ان میں سادھوی رتمبھرا، وشنو ہری ڈالمیا، نرتیہ گوپال داس اور بیکنٹھ لال شرما شامل ہیں۔ 6 دسمبر 1992 کو درج کی گئی ایف آئی آر میں ان کے نام ہیں اور یہ الزام عاید کیا گیا ہے کہ انھوں نے متنازعہ عمارت کو منہدم کرنے کے لیے بھیڑ کو منہدم کیا اور مجرمانہ سازش کی۔
اس سلسلے میں رائے بریلی کی خصوصی عدالت میں کارروائی شروع ہوئی۔ اس نے 2001 میں مجرمانہ سازش کے الزامات ختم کر دیے۔ 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔ لیکن اِسی سال 19 اپریل کو سپریم کورٹ نے اس معاملے پر نظرثانی کے بعد کہا کہ مجرمانہ سازش کا الزام واپس لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس نے کیس کو رائے بریلی سے لکھنؤ منتقل کر دیا او رکہا کہ دو سال کے اندر فیصلہ سنا دیا جائے۔
الزامات طے کیے جانے کے بعد، سنی سینٹرل وقف بورڈ کے وکیل اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ الزامات تو 1997 ہی میں طے ہو جانے چاہئیے تھے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر الزامات طے کیے گئے ہیں۔ حالانکہ کافی تاخیر ہو گئی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اب جبکہ سپریم کورٹ نے مداخلت کی ہے تو اس معاملے میں انصاف ہوگا‘‘۔
مرکزی وزیر اوما بھارتی نے لکھنؤ پہنچنے پر کہا کہ ’’وہ بے قصور ہیں انھوں نے کوئی سازش نہیں کی۔ جو کچھ ہوا تھا کھلم کھلا ہوا تھا۔ جس طرح ایمرجنسی کے خلاف تحریک چلی تھی ویسی ہی یہ تحریک تھی‘‘۔
بتایا جاتا ہے کہ آڈوانی جب لکھنؤ پہنچے تو وہ اس بات پر ناراض تھے کہ ان کا کوئی قصور نہیں ہے پھر بھی انھیں عدالت میں حاضری دینی پڑی۔ واضح رہے کہ اس معاملے میں آڈوانی دوسری بار عدالت میں حاضر ہوئے ہیں۔
بی جے پی لیڈر وینکیا نائڈو اور دوسروں نے ملزموں کا دفاع کیا اور کہا کہ وہ بے قصور ہیں اور عدالت سے بری ہو جائیں گے۔
نئی دہلی —
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1