|
نئی دہلی — بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے اور پانچ اگست کو بھارت آنے کے بعد نئی دہلی اور ڈھاکہ کے باہمی تعلقات میں جو سرد مہری آئی تھی وہ اب سفارتی سطح پر تناؤ میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان حالیہ تنازع کا آغاز بنگلہ دیشن میں ایک ہندو تنظیم کے سابق رہنما کی گرفتاری سے ہوا۔ گرفتار ہونے والے رہنما چنمے کرشنا داس کا تعلق ہندوؤں کی ایک مذہبی عالمی تنظیم 'انٹرنیشنل سوسائٹی فار کرشنا کونشس نیس' (اسکان) سے رہا تھا۔
انہیں 25 نومبر کو بنگلہ دیش کے شہر چٹاگانگ میں مبینہ بغاوت کے الزام میں گرفتار گیا تھا جس کے خلاف بھارت میں احتجاج کا شروع ہوا۔
ایک ہندو تنظیم 'ہندو سنگھرش سمیتی' نے پیر کو ریاست تری پورہ کے شہر اگرتلہ میں بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ ہائی کمیشن کے باہر احتجاج کیا۔ اس دوران مشتعل ہجوم نے ہائی کمیشن کی عمارت پر حملہ کیا تھا جس کے بعد مشن نے تاحکمِ ثانی ویزا اور تمام سفارتی خدمات معطل کردی ہیں۔
اس واقعے کے فوراً بعد بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے الزام لگایا کہ مظاہرین کو عمارت میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی اور انہوں نے بنگلہ دیش کے قومی پرچم کی بھی توہین کی۔
وزارتِ خارجہ نے حملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے سفارتی عملے کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اس واقعے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ سفارتی املاک کو کسی بھی حال میں نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔
تری پورہ کی پولیس نے اس سلسلے میں سات افراد کو گرفتار کیا ہے اور تین پولیس سب انسپکٹرز کی معطلی کے ساتھ چار اعلیٰ پولیس اہل کاروں کے خلاف کارروائی کی ہے۔
دوسری جانب بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے منگل کو بھارتی ہائی کمشنر پون ورما کو وزارتِ خارجہ طلب کرکے اس واقعے پر احتجاج کیا۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں قائم مقام سکریٹری خارجہ ریاض حمید اللہ نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ پون ورما نے بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کا اعادہ کیا اور کہا کہ کوئی ایک واقعہ باہمی تعلقات کی راہ میں آڑے نہیں آسکتا۔
اس سے قبل بھارتی وزارتِ خارجہ نے ہندو مذہبی رہنما کی گرفتاری اور عدالت کی جانب سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کو افسوس ناک قرار دیا تھا۔
وزارتِ خارجہ نے بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر مبینہ حملوں پر گہری تشویش ظاہر کی تھی۔ اس پر بنگلہ دیش نے ردِعمل میں کہا تھا کہ اس بیان میں درست حقائق پیش نہیں کیے گئے ہیں جو کہ دو ہمسایہ ملکوں کے دوستانہ تعلقات کے منافی ہے۔
خیال رہے کہ چنمے کرشن داس کی گرفتاری کے خلاف بنگلہ دیش میں بھی احتجاج ہو رہا ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور ان کی املاک کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔
بنگلہ دیش کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہاں اقلیتیں محفوظ ہیں۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کے پریس سیکریٹری شفیق الاسلام نے میڈیا سے گفتگو میں یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے ملک میں اقلیتوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حکومت اس بات کی پابند ہے کہ چنمے داس سے متعلق غیر جانب دار اور شفاف قانونی کارروائی ہو۔
البتہ بھارت کے بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پانچ اگست تک دونوں ملکوں کے درمیان جو دوستانہ تعلقات تھے اور اب کافی نچلی سطح پر آ گئے ہیں۔
’دوریاں بڑھ رہی ہیں‘
سینئر تجزیہ کار اور بھارت، بنگلہ دیش کے باہمی امور کے ماہر گوتم لہری کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعات نے دونوں ملکوں میں سفارتی کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ اگرتلہ میں بنگلہ دیشی سفارتی مشن پر حملے نے اس کشیدگی میں اضافہ کر دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ڈھاکہ میں بھارتی سفارت خانے کے باہر بھی مظاہرہ ہوا ہے جس کی وجہ سے بھارت نے میڈیکل ایمرجنسی کو چھوڑ کر باقی شہریوں کے لیے ویزا کا اجرا فی الحال بند کر دیا ہے۔ سفارتی عملہ واپس آگیا ہے اور سیکیورٹی نقطہ نظر سے تاحال واپس نہیں گیا ہے۔
گوتم لہری کے مطابق بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف نفرت انگیز تقریروں اور بیانات میں اضافہ ہوا ہے۔
کلکتہ کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار پرویز حفیظ بھی بنگلہ دیش میں بھارت مخالف جذبات کے ابھار کی بات کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی سمیت کئی مقامات پر بھارت کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔
ان کے بقول بھارت نے جس طرح شیخ حسینہ حکومت کی مکمل طور پر حمایت کی۔ اس سے بنگلہ دیش کے عوام بھارت سے ناراض ہیں۔ وہاں منعقد ہونے والے گزشتہ انتخابات کے بارے میں امریکہ سمیت متعدد ممالک اور عالمی تنظیموں نے بدعنوانی کے الزامات لگائے تھے۔ لیکن بھارت نے ان انتخابات کی حمایت کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیشی شہری یومیہ سینکڑوں کی تعداد میں سیاحت، معالجے اور شاپنگ کے لیے کلکتہ آتے تھے۔ لیکن حالیہ دنوں میں ڈھاکہ سے کلکتہ کے دم دم ایئرپورٹ آنے والی پروازیں کم ہو گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش سے بھارت کے معاشی، سیاسی، اقتصادی اور سفارتی تعلقات کے علاوہ اسٹرٹیجک تعلقات بھی ہیں۔ پڑوسی ملکوں میں صرف بنگلہ دیش ہی ایسا ملک تھا جس سے بھارت کے دوستانہ تعلقات تھے۔ لیکن معمولی باتوں پر اس کو اپنے حلقہ اثر سے باہر جانے دینا بھارت کی خارجہ پالیسی کی نا کامی ہے۔
ان کے بقول بھارت کو چاہیے کہ وہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ دونوں ملکوں کے درمیان قائم ہونے والی خلیج ابھی اتنی وسیع نہیں ہوئی ہے کہ اسے دور نہ کیا جا سکے۔
گوتم لہری نے بتایا کہ اسی ماہ ڈھاکہ میں دونوں ملکوں کے خارجہ سکریٹریوں کا اجلاس ہونے والا ہے جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہو گا۔ اگر یہ اجلاس منعقد ہوا تو توقع ہے کہ کشیدگی میں کچھ کمی آئے گی۔
بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ میں عوامی سفارت کاری شعبے کے ڈائریکٹر جنرل توفیق حسن کا کہنا ہے کہ اجلاس میں شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش بھیجنے سے متعلق بھی تبادلہ خیال ہو گا۔
ادھر بھارت میں متعدد سیاست دانوں کی جانب سے بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ سینئر کانگریس رہنما اور ارکان پارلیمنٹ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے بھی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے بھی ایک بیان میں کہا کہ وہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہندو اقلیت کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی کو روکنے کے اقدامات کریں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت کے ساتھ مبینہ طور پر جو کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ تشویش ناک اور قابل مذمت ہیں۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
دریں اثنا امریکہ کی وزارتِ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بنگلہ دیش سے کہا کہ وہ مذہبی و انسانی حقوق کی حفاظت کرے اور شہریوں کی بنیادی آزادی کو برقرار رکھے۔
جب کہ برطانیہ کے ایوانِ نمائندگان میں بنگلہ دیش کی صورت حال پر مباحثہ ہوا جس میں ہندو اقلیتوں پر مبینہ مظالم پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
فورم