|
ویب ڈیسک — چینی دارالحکومت بیجنگ کے شمال مغرب میں واقع ایک تحقیقی ادارے میں مالیکیولر بائیولوجسٹ لی جیپنگ اور ان کی ٹیم نے گملوں میں کاشت کردہ سات غیر معمولی طور پر چھوٹے آلوؤں کے گچھے کاٹے جس میں کاشت کردہ آلو بٹیر کے ایک انڈے کے سائز جتنے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق آلو ایسے درجؤۂ حرارت میں کاشت کیے گئے جس کے بارے میں اختتام صدی میں ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
خوراک کی فراہمی کے تحفظ سے متعلق بیجنگ میں بین الاقوامی آلو مرکز (سی آئی پی) کے محقق لی، سبزیوں پر زیادہ درجۂ حرارت کے اثرات کے بارے میں تین سالہ مطالعے کی قیادت کر رہے ہیں جب کہ ان کی ٹیم چین کی سب سے مقبول آلوؤں کی اقسام پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
تحقیقی ادارے میں کاشت کردہ آلوؤں کا وزن ایک عام آلو کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے جب کہ چین میں آلو کی مقبول اقسام کا سائز بیس بال کے سائز سے بھی دو گنا ہوتا ہے۔
چین دنیا میں آلو پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو کہ دیگر اہم فصلوں کے مقابلے میں زیادہ پیداوار کی وجہ سے عالمی غذائی تحفظ کے لیے اہم ہیں۔
تاہم چین میں آلوؤں کی کاشت کو کاربن کے اخراج کے پیشِ نظر گرم آب و ہوا کا سامنا ہے جس کی وجہ سے خطرناک حد تک درجۂ حرارت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جو کہ خشک سالی اور سیلاب کی وجہ بھی بن رہا ہے۔
لی کی ٹیم نے شمالی ہوبی اور منگولیا میں تجربات کیے ہی۔ یہ دونوں چین کے زیادہ اونچائی والے صوبے ہیں اور جہاں عام طور پر آلو کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ اس ٹیم نے وہاں موجودہ اوسط درجۂ حرارت تین ڈگری سینٹی گریڈ پر قائم ایک چیمبر میں تین مہینوں کے دوران فصل کاشت کی ہے۔
لی کی تحقیق جو کہ رواں ماہ جریدے ’کلائمیٹ اسمارٹ ایگریکلچر‘ میں شائع ہوئی، میں بتایا گیا کہ زیادہ درجۂ حرارت نے فصل کی نشوونما میں 10 دن کی تیزی دیکھی گئی تاہم آلو کی پیداوار میں نصف سے زیادہ کمی ہوئی۔
اقوامِ متحدہ کی اکتوبر میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ موسمیاتی پالیسیوں کے تحت دنیا کو تین اعشاریہ ایک سینٹی گریڈ تک گرمی کا سامنا ہے۔