رسائی کے لنکس

بھارت: چندریان تھری کی چاند کی جانب پرواز، سائنس دان اس بار پراُمید


بھارت کے خلائی تحقیق کے ادارے ’انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن‘ (اسرو) نے چاند پر بھیجنے والا اپنا خلائی مشن چندریان تھری جمعے کو کامیابی کے ساتھ لانچ کر دیا۔ اسے آندھرا پردیش کے ستیش دھون اسپیس سینٹر سری ہری کوٹا سے لانچ کیا گیا۔ اس کے لیے سب سے طاقت ور راکٹ لانچر ایل ایم وی تھری کا استعمال کیا گیا۔

چندریان تھری کے 23 یا 24 اگست کو چاند کی سطح پر اترنے کا امکان ہے۔ اگر یہ مرحلہ کامیابی کے ساتھ مکمل ہو گیا تو بھارت چاند پر پہنچنے والا دنیا کا چوتھا ملک بن جائے گا۔ اس سے قبل امریکہ، روس اور چین نے چاند پر خلائی گاڑی بھیجنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

امریکہ اور روس کو یہ کامیابی چاند پر اترنے کی کئی کوششوں کے بعد ملی تھی جب کہ چین نے پہلی ہی کوشش میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔ بھارت کی یہ دوسری کوشش ہے۔ اس سے قبل 2019 میں اس کا خلائی مشن ناکام ہو گیا تھا۔

لانچنگ کے تین مرحلے تھے جو کامیابی کے ساتھ مکمل ہوئے۔ خلائی گاڑی لانچنگ کے 900 سیکنڈ کے بعد ایل ایم وی تھری سے الگ ہو گئی۔ اسرو کے سائنس دان آنے والے دنوں میں خلائی گاڑی کو چاند کے راستے پر ڈالنے کا عمل شروع کریں گے۔ یہ گاڑی پانچ اگست کو چاند کے مدار میں داخل ہوگی۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر بھار ت کا یہ مشن کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا تو چاند کے قطب جنوبی پر پہنچنے والا بھارت پہلا ملک ہوگا۔ اگر سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا اور چندریان تھری چاند کے قطب جنوبی پر اترنے میں کامیاب رہا تو یہ بھارت کی تیکنیکی صلاحیت اور خلائی سفر کے جرأت مندانہ عزائم کا عکاس ہوگا۔

متعدد ملکوں نے چاند کے قطب جنوبی پر لینڈ کرنے کی کوشش کی لیکن تاحال اس میں کوئی بھی ملک کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

یاد رہے کہ چندریان تھری کی تیاری پر 615 کروڑ روپے یعنی 75 ملین ڈالر خرچہ آیا ہے۔

اسرو کے چیف ایس سومناتھ نے لانچنگ کے بعد کہا کہ چندریان تھری نے چاند کی طرف اپنا سفر شروع کر دیا ہے۔ اس کا پروپلشن ماڈیول چاند کے مدار میں رہ کر زمین سے آنے والی شعاعوں کا مطالعہ کرے گا۔ اسرو کی جانب سے چاند کی مٹی، اس کی چٹانی سطح کی پرت، دھول اور اس کی بناوٹ کا سائنسی جائزہ لیا جائے گا۔


اسرو کے سابق چیئرمین مادھون نائر کے مطابق انہیں پورا یقین ہے کہ اس بار یہ مشن کامیاب ہوگا۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چندریان تھری بھارت کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔

اسرو کے ایک اور سائنس داں نامبی نرائن کا کہنا ہے کہ اسرو نے چندریان ٹو مشن کے ذریعے اکٹھے کیے گئے ڈیٹا کا جائزہ لیا اور سابقہ غلطیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے چندریان تھری میں تبدیلیاں کیں۔ لہٰذا انہیں امید ہے کہ چندریان تھری کامیابی کے ساتھ چاند کی سطح پر اتر جائے گا۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کامیابی پر اسرو کے سائنس دانوں کو مبارکباد پیش کی اور اسے خلائی سائنس کی ترقی میں ایک اہم باب قرار دیا ہے۔

چندریان تھری کے اڑان بھرنے کی کارروائی کو تقریباً تمام نشریاتی اداروں نے براہ راست دکھایا۔ متعدد نیوز چینلوں پر اس سلسلے میں مباحثوں کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔

سائنس دانوں نے اسرو کی اس کامیابی کو غیر معمولی قرار دیا ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابھی اس مشن کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے ابھی آگے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔


خلائی سائنس داں ڈاکٹر امیتابھ پانڈے نے ایک ٹی وی مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اس کامیابی کا یقین تو شروع سے ہی تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چندریان ٹو کی ناکامی کا مطالعہ کرکے خامیاں دور کی گئی تھیں۔

ان کے خیال میں اگر بھارت نے چاند کی سطح پر چندریان کی سافٹ لینڈنگ کرا دی تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی اور اس کے بعد ہم مریخ پر پہنچنے کا خواب بھی پورا کر نے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان کے خیال میں چاند کی سطح پر سافٹ لینڈنگ آسان نہیں ہوتی، یہ بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ اس مہم میں ہزاروں سائنس دان مصروف رہے ہیں۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اس کا خواب دیکھا تھا جس کی تعمیر کا انتظار ہے۔ اس کے بعد اور بھی بہت سی شخصیات نے اس عزم کا اظہار کیا لیکن ہمیں اب جا کر کامیابی ملی ہے۔

سینئر سائنس دان ڈاکٹر ایس کے ڈھاکا کا کہنا ہے کہ بھارتی سائنس دانوں نے پہلا مرحلہ مکمل کر لیا ہے۔ سائنس دانوں نے چندریان تھری کو زمین کے مدار میں تو پہنچا دیا لیکن اصل چیلنج اس وقت سامنے آئے گا جب اسے چاند کے مدار میں پہنچانا ہوگا۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر بھارت قطب جنوبی پر اپنے سائنسی عزائم میں کامیاب ہو گیا تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ہمارا ایک اسٹیشن ہو۔ ہم اس کا استعمال کرکے اور آگے جا سکیں گے۔ ہم اس کے بعد دوسرے سیاروں پر بھی کمندیں ڈال سکیں گے۔

سینئر سائنس داں ڈاکٹر نریندر بھنڈاری کے مطابق اس مہم کے دو مرحلے ہیں۔ ایک ٹیکنالوجیکل اور دوسرا سائنسی۔ بھارتی سائنس دانوں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی قابلیت ثابت کر دی ہے اور اب اس حوالے سے سائنسی میدان میں کامیابی ثابت کرنا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر چندریان چاند پر کامیابی کے ساتھ اترگیا تو اسے وہاں کی مٹی، درجہ حرارت اور دوسری چیزوں کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوگا کہ ہماری سائنسی کوششیں کہاں تک کامیاب ہوئی ہیں۔

ان کے مطابق اگر بھارتی سائنس دان چاند پر اپنے تجربات کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ممکن ہے کہ دنیا کو چاند کے بارے میں کچھ ایسی نئی معلومات مل جائیں جو ابھی تک اس کے پاس نہیں ہیں۔

سائنس دانوں کے مطابق چندریان کو چاند کے راستے پر ڈالنے سے قبل چندریان کو زمین کے کم از کم چار چکر لگانے ہوں گے۔ ہر چکر پہلے والے چکر سے بڑا ہوگا۔ یہ چکر انجن کو آن کرکے لگایا جائے گا۔

اس کے بعد چندریان تھری کو ٹرانس لونر انسرشن (ٹی ایل آئی) کمانڈ دیے جائیں گے۔ اس کے بعد وہ سولر آربٹ یعنی لمبے ہائی وے پر سفر کرے گا۔ وہ چاند کے بیرونی مدار میں پانچ اگست کے آس پاس پہنچے گا۔ لیکن یہ اعداد و شمار اسی وقت درست ہوں گے جب سب کچھ منصوبے کے مطابق چلتا رہے گا۔ اس کے بعد چندریان کے چاند پر اترنے کی باری آئے گی۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لینڈر وکرم کو چاند پر کہاں لینڈ کرنا ہے اس کا انتخاب وہ خود کرے گا۔ اس کا انجن زیادہ طاقت ور بنایا گیا ہے۔ تاکہ اس بار وہ حادثے کا شکار نہ ہو۔

سائنس دانوں کے مطابق اس مشن کی مدد سے چاند پر انسانی زندگی کے لیے ضروری خصوصیات کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس سے دیگر سیاروں کی تلاش میں بھی مدد ملے گی۔ اس کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ کیا چاند پر بھی زلزلہ آتا ہے۔

ان کے مطابق اس مشن میں اس کا بھی پتہ لگایا جائے گا کہ چاند اور زمین کے درمیان واقعتاً کتنی مسافت ہے۔ ایک آلہ چاند کے پلازما ماحول کا جائزہ لے گا۔ مجموعی طور پر اس مشن سے چاند کے بارے میں بہت کچھ معلومات حاصل ہونے کی امید ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG