دو دہائیوں قبل بھارت کی ریاست گجرات میں ہونے والے فسادات پر برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی دستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کوئسچن‘ پر تنازع شدید ہوتا جا رہا ہے۔ اس دستاویزی فلم میں فسادات کے لیے نریندر مودی کو براہِ راست ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے۔ مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔
یہ دستاویزی فلم برطانوی دفتر خارجہ کی ایک غیر مطبوعہ رپورٹ کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے جسے بی بی سی نے دفتر خارجہ سے حاصل کیا تھی۔ یہ فلم دو حصوں پر مبنی ہے۔ پہلا حصہ 17 جنوری کو دکھایا جا چکا ہے او ردوسرا 24 جنوری کو دکھایا جائے گا۔
واضح رہے کہ 28 فروری 2002 کو گجرات کے گودھرا اسٹیشن پر سابر متی ایکسپریس کے ایس سکس کوچ میں آتش زدگی کے نتیجے میں ایودھیا سے واپس آنے والے 59 ہندو جھلس کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد پورے گجرات میں تشدد پھوٹ پڑا تھا جس میں کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
فلم میں اس وقت کے برطانوی سکریٹری خارجہ جیک اسٹرا کا انٹرویو بھی شامل ہے۔ ان کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ایسے سنگین دعوے کیے گئے ہیں کہ نریندر مودی نے پولیس کو پیچھے ہٹانے اور ہندوانتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں فعال کردار ادا کیا تھا۔ یہ خاص طور پر سیاسی مداخلت تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس وقت برطانوی حکومت کیا کر سکتی تھی تو انھوں نے کہا کہ اس کے پاس محدود آپشنز تھے۔ ہم بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں توڑ سکتے تھے۔
بھارت نے بی بی سی کی دستاویزی فلم کو پہلے ایک ’پروپیگنڈہ پیس‘ قرار دے کر اسے مسترد کیا تھا اور بعد ازاں اس کو بھارت میں دکھانے پر پابندی عاید کر دی۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے نیوز بریفنگ میں کہا کہ فلم متعصبانہ اور استعماری ذہنیت کی غماز ہے۔ ان کے بقول اس کے ذریعے ایک ایسے بیانیے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے پہلے ہی مسترد کیا جا چکا ہے۔
حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے قوانین کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دستاویزی فلم کو سوشل میڈیا پر دکھانے پر بھی پابندی عاید کر دی ہے۔ بھارتی حکومت نے ٹوئٹر اور یو ٹیوب کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں تمام ٹوئٹس اور تبصرے ہٹا دیں۔
ان دونوں پلیٹ فورمز نے حکومت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے تمام ویڈیوز اور ٹوئٹس کو ہٹا دیا ہے۔تاہم متعدد صارفین بی بی سی کی ویب سائٹ سے لے کر فلم کا لنک شیئر کر رہے ہیں۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے حکومت کے اس قدم کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ کانگریس کے ترجمان گورو ولبھ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ حکومت مشکل سوالوں کے جواب دینے سے بچ رہی ہے۔ حکومت کی اس کارروائی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ فلم میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ سچ ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اگر بی بی سی کا صدر دفتر بھارت میں ہوتا تو اب تک اس پر مرکزی ایجنسیوں کا چھاپہ پڑ چکا ہوتا۔
ترنمل کانگریس (ٹی ایم سی) کے ارکان پارلیمان ڈیرک او برائن اور مہوا موئترا اور شیو سینا کی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی نے بھی فلم پر پابندی لگانے کی مذمت کی۔ انھوں نے اسے سینسر شپ قرار دیا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے سوال کیا کہ کیا حکومت مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے پر آنے والی فلم پر بھی پابندی لگائے گی۔ یہ فلم 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقعے پر ریلیز کی جارہی ہے۔
انھوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا کہ جب گجرات میں بہت بڑے پیمانے پر تشدد ہوا، کانگریس کے سابق ایم پی کو ہلاک کیا گیا اور بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی، آپ گجرات کے وزیر اعلیٰ نہیں تھے۔
انسانی حقوق کی ایک سرگرم تنظیم ’ ساوتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکومنٹیشن سینر‘ کے چیئرمین روی نائر کے مطابق جمہوریت میں کسی بھی کتاب یا فلم پر پابندی لگانا درست نہیں ہے۔
انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے گجرات فساد سے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم پر جو پابندی لگائی ہے وہ غلط ہے۔ انھوں نے کہا کہ مذکورہ فلم میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ سب پہلے ہی سے لوگوں کو معلوم ہیں۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلم میں ایک نئی بات ضرور ہے اور وہ اس وقت کے برطانوی سکریٹری خارجہ جیک اسٹرا کا بیان ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ انھوں نے بھارت میں برطانوی ہائی کمیشن کی یہ رپورٹ دیکھی ہے اور اس میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ درست ہے۔ ہم نے یہ معاملہ اس وقت کے بھارت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے سامنے اٹھایا تھا۔
روی نائر نے مزید کہا کہ اس وقت جبکہ بھارت میں گروپ ۔20 کا اجلاس ہونے والا ہے، اس فلم سے بین الاقوامی سطح پر وزیر اعظم مودی کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اس پر پابندی لگائی ہے۔
’پابندی غیر ضروری ہے‘
سینئر تجزیہ کار اور روزنامہ ’نوبھارت ٹائمز‘ کے سابق ایڈیٹر نریندر ناگر بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی کو غیر ضروری اور احمقانہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق فلم پر بھارت میں پابندی لگائی گئی ہے جبکہ یہاں اسے دکھائے جانے سے حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ معاملہ از خود کچھ دنوں کے بعد دب جاتا۔
بعض دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سے دوسرے ممالک میں آباد بھارتی تارکین وطن کو دشواری ہو سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے انھوں نے ہی اس کی مخالفت کی تھی۔
برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے ایوان میں اس معاملے کو اٹھایا تھا جس پر وزیر اعظم رشی سنک نے کہا تھا کہ فاضل رکن نے جو کچھ کہا ہے حکومت اس سے متفق نہیں ہے۔
بھارت کی ’بدنامی‘
دوسری طرف بھارتی حکومت کے وزرا اور حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے رہنماؤں نے پابندی کو حق بجانب ٹھہرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فلم بھارت کو بدنام کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔
وزیر قانون کرن رجیجو نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ کچھ لوگ اب بھی نوآبادیاتی نشے سے باہر نہیں آسکے ہیں۔ وہ لوگ بی بی سی کو بھارت کی سپریم کورٹ سے اوپر مانتے ہیں اور اپنے اخلاقی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ملک کے وقار کو ملیامیٹ کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ بھارت کی کسی بھی عدالت نے نریندر مودی کو فساد کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی جانے والی ’اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم‘ (ایس آئی ٹی) نے بھی اپنی رپورٹ میں نریندر مودی کو کلین چٹ دی ہے۔
نریندر مودی تشدد کے لیے ذمہ دار ہونے کے الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ تشدد سے متعلق ان کی معلومات گمراہ کن ہیں اور ریاست میں امن ہے۔
اسی درمیان آل انڈیا بار ایسو سی ایشن نے وزیر داخلہ امت شاہ کے نام ایک خط میں بی بی سی کی فلم میں مبینہ بین الاقوامی سازش کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔