رسائی کے لنکس

سرحدی کشیدگی: بھارت اور چین کی افواج کے درمیان مذاکرات ناکام، ایک دوسرے پر الزام تراشی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت اور چین کی افواج کے درمیان لداخ میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ دونوں ملکوں نے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھیرایا ہے۔

چین کی جانب سے لائن آف ایکچوول کنٹرول (ایل اے سی) پر مولڈو کے مقام پر سینئر ملٹری کمانڈرز کی سطح پر ہونے والے یہ تیرہویں دور کے مذاکرات تھے۔

تقریباً دس گھنٹے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد پیر کی صبح بھارتی فوج نے ایک بیان میں دعوی کیا ہے کہ مذاکرات کے دوران بھارت نے تنازعات کے حل کے لیے تعمیری تجاویز پیش کیں جنہیں چین نے تسلیم نہیں کیا۔

دوسری جانب چین کی فوج ’پیپلز لبریشن آرمی‘ (پی ایل اے) کی جانب سے ایک بیان میں بھارت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے مسئلے کے حل کے لیے کوئی قابلِ قبول تجویز پیش نہیں کی۔

واضح رہے کہ 15 جون 2020 کو مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر دونوں ملکوں کے فوجی جوانوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ چین نے ابتدائی طور پر کسی بھی قسم کے نقصان سے انکار کیا تھا، بعدازاں اس نے کچھ جانی نقصانات کا اعتراف کیا تھا۔

اس واقعے کے بعد جوہری قوت کے حامل دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی برقرار رہی جس کے خاتمے کے لیے فریقین میں کمانڈرز سطح کے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ ان مذاکرات کے بعد بعض متنازع علاقوں سے دونوں ملکوں کی افواج کچھ پیچھے ہٹی تھیں۔

البتہ اتوار کو ہونے والے مذاکرات ایک مرتبہ پھر تعطل کا شکار ہو گئے ہیں اور دونوں ملک اس کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھیرا رہے ہیں۔

بھارتی فوج نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ چین نے بقول ان کے مذاکرات میں پیش رفت سے متعلق کوئی تجویز پیش نہیں کی جس کی وجہ سے مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

بیان میں مزیدالزام لگایا گیا ہے کہ چین کی جانب سے باہمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایل اے سی کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔

ادھر چین کی فوج کے مغربی کمان کے ترجمان سینئر کرنل لانگ شاہوا نے ایک بیان میں کہا کہ چین نے سرحد پر کشیدگی کو ختم کرنے اور امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے زبردست کوششیں کیں اور دونوں افواج کے درمیان تعلقات کو بحال کرنے کے لیے مکمل سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

انہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بھارت نامناسب اور غیر حقیقت پسندانہ مطالبات پر مصر ہے جس کی وجہ سے بات چیت میں مزید دشواریاں پیدا ہو رہی ہیں۔

ان کے بقول چین اپنی خود مختاری کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے اور بھار ت کو مشکل سرحدی صورتِ حال کا احساس کرنا چاہیے۔ دونوں ملکوں اور افواج کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چین کو امید ہے کہ بھارت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گا اور سرحدی علاقوں میں امن و استحکام کے تحفظ اور انہیں یقینی بنانے کے لیے چین کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

کیا چین اور بھارت کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:16 0:00

تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں جانب سے جاری ہونے والے بیانات قدرے سخت لب و لہجے میں ہیں جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی باقی ہے اور ایک عرصے سے جاری تعطل کے سلسلے میں دونوں کے خیالات مختلف ہیں۔

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار سعید نقوی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت چین پر کافی دباؤ ہے۔ تائیوان، امریکہ اور بھارت کے ساتھ اس کے تنازعات ہیں جب کہ چار ملکوں کے گروپ کواڈ (امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان) کی جانب سے اس کی سرگرمیوں کو روکنے کی کوششیں جاری ہے۔ ایسے حالات میں وہ خود کو کمزور دکھانا نہیں چاہتا۔

ان کے بقول اسی طرح بھارت کی حکومت پر بھی داخلی سیاست کا دباؤ ہے۔ آئندہ چند ماہ کے اندر کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ لہٰذا حکومت خود کو کمزور دکھانا نہیں چاہتی۔

سعید نقوی کہتے ہیں کہ بھارت کی حکمراں جماعت انتخابات کے دوران قوم پرستی کا خاص طور پر مظاہرہ کرتی ہے۔ لہٰذا اس وقت بظاہر کسی کمزوری کا مظاہرہ کرنا اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ان کے بقول فریقین کی جانب سے جو بیانات جاری ہوئے ہیں ان میں کوئی نئی بات نہیں۔ پہلے بھی ایسے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان فوجی سطح پر بات چیت ہو رہی ہے۔

ان کے خیال میں یہ تنازع کمانڈرز کی سطح پر ہونے والی بات چیت سے حل نہیں ہوگا۔ جب تک دونوں ملکوں کی اعلیٰ سیاسی قیادت کے درمیان بات نہیں ہو گی اس وقت تک کشیدگی کا خاتمہ ممکن نہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کا اصرار ہے کہ کشیدگی کے خاتمے اور امن و امان کی بحالی کے لیے دیپسانگ سمیت تمام متنازع علاقوں سے متعلق پیش رفت ضروری ہے۔

دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان مذاکرات کے تیرہویں دور سے قبل بھی دو بار فوجیوں کے درمیان معمولی ٹکراؤ ہوا تھا۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق 30 اگست کو چین کی فوج کے اہلکار بڑی تعداد میں اتراکھنڈ میں داخل ہوئے تھے جہاں وہ تین گھنٹے تک رہے اور انہوں نے مبینہ طور پر ایک پل سمیت بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG