بھارت کی جنوبی ریاست کیرالا کی اسمبلی نے ایک قانون پاس کیاہے جس کے ذریعے دو مقامی باشندوں کو معروف امریکی مشروب ساز کمپنی "کوکا کولا" کے خلاف ہرجانے کے دعویٰ دائر کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔
امریکی کمپنی کی بھارتی شاخ نے اس قانون سازی پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔
کیرالا کی اسمبلی میں مذکورہ قانون ریاستی حکومت کی جانب سے قائم کردہ ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کی رپورٹ کے بعد منظور کیا گیا ہے جس میں ریاست کی حدود میں واقع "کوکا کولا" کے پلانٹ کو آلودگی اور کئی دیگر ماحولیاتی مسائل کی وجہ قرار دیا گیا تھا۔
ریاستی حکومت کے دعویٰ کے مطابق ضلع پلاکاد میں واقع "کوکا کولا" کے مقامی پلانٹ میں پانی کے غیر ضروری استعمال کے باعث علاقے میں زیرِ زمین پانی کی سطح گرگئی ہے۔
ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ پلانٹ سے خارج ہونے والے کیمیائی فضلے میں کیڈمیم، جست اور دیگر دھاتوں کی بڑی مقدار کی موجودگی نہ صرف فصلوں بلکہ مقامی لوگوں کی صحت کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی تھی۔
'پلاچیمادا' نامی گائوں کے قریب واقع اس پلانٹ کو مقامی باشندوں اور ماحولیات کے تحفظ کےلیے کام کرنے والی تنظیموں کے احتجاج پر 2005ء میں بند کردیا گیا تھا۔
ریاستی اسمبلی میں منظور کیے گئے قانون کی رو سے ایک تین رکنی ٹربیونل قائم کیا جائے گا جو ان مقامی باشندوں کی جانب سے دائر کردہ دعوؤں کی سماعت کا مجاز ہوگا جنہوں نے پلانٹ سے پھیلنے والی آلودگی سے شدید متاثر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
"ہندوستان کوکا کولا بیوریجز" کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کمپنی نے ریاستی پینل کی رپورٹ کو حقائق اور سائنٹیفک اعدادوشمار سے متصادم قرار دیا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ سرکاری رپورٹ "کوکا کولا" کے نمائندوں کی جانب سے پینل کے سامنے پیش کردہ موقف کے بالکل برعکس ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاستی اسمبلی میں بل پیش کیے جانے سے قبل "کوکا کولا" کو آزادانہ ذرائع سے اکٹھے کیے گئے اعدادو شمار پیش کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔
کیرالا کی ریاستی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ ایک کمیٹی نے پلانٹ سے ہونے والے مبینہ نقصانات کا تخمینہ 4 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز لگایا تھا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ غیر ملکی مشروب ساز کمپنی کو اس جنوبی بھارتی ریاست میں حکومتی اقدامات کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ اس سے قبل 2006ء میں کیرالا کی حکومت نے "کوکا کولا" اور "پیپسی" کی ریاستی حدود میں تیاری اور فروخت پر پابندی عائد کردی تھی جسے بعد ازاں ہائیکورٹ کے حکم پر اٹھا لیا گیا تھا۔