مری قبائل کے افراد کا وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ہاؤس کے باہر تین لاشیں رکھ کر دوسرے روز بھی دھرنا جاری ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ خاتون اور ان کے دو بیٹوں کے قتل میں مبینہ طو رپر ملوث صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
بلوچستان کے ضلع بارکھان میں ایک کنویں سے پیر کو تین لاشیں ملی تھیں۔ مقتولین کے ورثا نے الزام عائد کیا ہے کہ مرنے والے تینوں افراد سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید تھے جب کہ متاثرہ خاندان کے مزید پانچ بچے اب بھی قید میں ہیں۔
بارکھان واقعے کے خلاف مقتولین کے ورثا اور مری قبیلے کا میتوں کے ساتھ کوئٹہ میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس واقعے کا از خود نوٹس لیں جب کہ صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کو گرفتار کرکے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔
دوسری جانب بلوچستان بار کونسل نے بارکھان واقعے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے بدھ کو صوبے بھر میں عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔
چند روز قبل ایک خاتون کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ اپنے سات بچوں کے ساتھ سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید ہیں۔
بعدازاں خاتون اور اس کے دو بیٹوں کی لاشیں بارکھان کے قریب ایک کنویں سے ملی تھیں۔
تاہم صوبائی وزیر مواصلات اور کھیتران قبیلے کے سربراہ سردار عبدالرحمان کھیتران نے واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے آبائی گھر سے تقریباً دو کلو میٹر دو ر ایک کنویں سے یہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں اور انہیں معلوم نہیں کہ یہ لاشیں کس کی ہیں۔
ان کے بقول، "میں اس وقت کوئٹہ میں اپنے گھر پر موجود ہوں اور میری کوئی نجی جیل نہیں ہے۔ حکومت اور تمام اداروں کو پیشکش کرتا ہوں کہ بارکھان، کوئٹہ اور لاہور میں موجود میرے گھروں کی تلاشی لے لیں۔"
سردار عبدالرحمان کھیتران نے دعویٰ کیا ہے کہ کچھ لوگ مری اور ان کے قبیلے کو دست و گریبان کرانے کی خواہش رکھتے ہیں اور ماضی میں بھی اس طرح کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔"
البتہ بارکھان واقعے کا مقدمہ اب تک درج نہیں ہو سکا ہے جب کہ مری قبیلے نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خاتون اور ان کے دو بیٹوں کے قتل کا مقدمہ صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کے خلاف درج کیا جائے اور ان کی قید میں موجود دیگر بچوں کو فوری بازیاب کرایا جائے۔
مظاہرین نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس واقعے کا مقدمہ سردار عبدالرحمان کھیتران کے خلاف درج کرنے کے بجائے نامعلوم افراد کے خلاف درج کرانے کے لیے ان پر دباؤ ڈال رہی ہے۔
کوئٹہ پولیس نے منگل کی شب صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کے گھر پر چھاپا مارا اور اس دوران ان کی رہائش گاہ کے مختلف حصوں کی تلاشی بھی لی گئی لیکن کوئی بازیابی عمل میں نہیں آ ئی۔
پاکستان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) میں جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے پولیس کی اس کارروائی کو دھوکہ قرار دیا ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے ہی پہلی مرتبہ اس معاملے کو سینیٹ کے فلور پر اٹھایا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ ایک وزیر کی نجی جیل میں ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد موجود ہیں۔
انہوں نے بدھ کو پولیس کی کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں چھاپوں کے ڈرامے نہیں قاتل چاہئیں جب کہ باقی ماندہ پانچ مغوی بچوں کو بازیاب کرایا جائے۔
بلوچستان پولیس کے ترجمان نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ آئی جی بلوچستان نے بارکھان واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے اور اس واقعے پر متاثرہ خاندان کی مشاورت سے اعلیٰ سطح کی غیر جانب دار تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
انسانی حقوق کمیشن بلوچستان چیپٹر کے چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ بارکھان واقعے کو انسانیت سوز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانونی طور پر یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے مگر اس واقعے میں ریاست مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک خاتون کی سوشل میڈیا پر پہلے ویڈیو وائرل ہوئی جس میں خاتون نے حکومت سے مدد کی اپیل کی لیکن ریاست نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور اب اس کی لاش کوئٹہ کی سڑک پر پڑی ہے۔