|
بنگلہ دیش کی جانب سے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی حوالگی کی باضابطہ درخواست پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ نئی دہلی کے لیے ایک سفارتی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔
شیخ حسینہ ملک بھر میں طلبہ کی قیادت میں بڑے پیمانے پر مظاہروں اور ہلاکتوں کے نتیجے میں انتظامی کنٹرول کھونے کے بعد اگست میں بھارت فرار ہو گئیں تھیں۔
ڈھاکہ کی عبوری حکومت کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کی حوالگی انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے درکار ہے۔
شیخ حسینہ اپنے 15 سالہ دور اقتدار میں نئی دہلی کے قریبی اتحادی رہی ہیں اور ان کے جابرانہ طرز حکومت کے باعث بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف برہمی میں اضافہ ہوا۔
بنگلہ دیش نے ایک ایسے موقع پر شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے جب بھارت نئی انتظامیہ سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارت کی وزارت خارجہ نے پیر کے روز حوالگی کے لیے ایک سفارتی خط موصول ہونے کی تصدیق کی، لیکن یہ بھی کہا کہ اس وقت اس معاملے پر کہنے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر دونوں ملکوں کے تعلقات، جو پہلے ہی کشیدہ ہیں، مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
نئی دہلی میں قائم ایک تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے ایک تجزیہ کار منوج جوشی کہتے ہیں کہ اس سے عبوری حکومت کے ساتھ نئی دہلی کے تعلقات مزید کمزور ہو جائیں گے کیونکہ بھارت یہ درخواست قبول نہیں کر سکتا۔
یہ درخواست ڈھاکہ میں قائم انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کی جانب سے سابق وزیراعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کے دو ماہ بعد سامنے آئی ہے۔ ٹربیونل نے انہیں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے طلب کیا تھا۔
بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ موجود ہے، لیکن یہ معاہدہ سیاسی نوعیت کے جرم پر حوالگی کی درخواست مسترد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسے بنیاد بنا کر بھارت حوالگی سے انکار کر سکتا ہے۔
واشنگٹن میں جنوبی ایشیا انسٹی ٹیوٹ ولسن سینٹر کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ ایسے حالات نہیں ہیں جن کے تحت نئی دہلی یہ درخواست قبول کرنے پر غور کرے۔
وہ کہتے ہیں بھارت کی ہمسائیگی میں حسینہ طویل عرصے تک اس کی سب سے قریبی حلیف رہی ہیں۔ حسینہ کے لیے بھارت معاہدے کی شقوں کو جواز بنائے گا۔
ڈھاکہ کی جانب سے یہ باضابطہ درخواست بھارت کے خارجہ امور کے سیکرٹری وکرم مصری اور بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے درمیان بات چیت کے دو ہفتوں کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس ملاقات سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے تعلقات میں استحکام آئے گا۔
بھارت نے حالیہ مہینوں میں بنگلہ دیش میں اقلیتی ہندوؤں پر حملوں کے بارے میں شکایت کی تھی جس پر بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس نے ان رپورٹوں کو مبالغہ آمیز قرار دے دیا تھا۔
حوالگی کی درخواست پر منوج جوشی کہتے ہیں کہ اسے تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں میں ایک کمزوری کے طور پر دیکھا جائے گا کیونکہ بنگلہ دیش کی حکومت بھارت پر یہ دباؤ ڈال رہی ہے کہ اگر آپ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں تو حسینہ کو واپس بھیج دیں۔
بنگلہ دیش میں حسینہ کے خلاف مقدمے کو بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے ۔ ڈھاکہ میں "بنگلہ دیش پیس آبزرویٹری" کے ایک تجزیہ کار خندکر تحمید رضوان کہتے ہیں کہ اگر بھارت حسینہ کو واپس نہیں بھیجتا، جیسا کہ امکان ہے، تو ملک میں بھارت مخالف جذبات مزید گہرے ہوں گے۔
شیخ حسینہ کی بھارت میں موجودگی نے دہلی کے لیے ڈھاکہ کی عبوری حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ بھارت کی بنگلہ دیش کے ساتھ 4096 کلومیٹر مشترکہ سرحد ہے جس کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ ڈھاکہ سے اس کے تعلقات بہتر ہوں کیونکہ بھارت کو اپنے پڑوس میں پاکستان اور چین کے ساتھ پہلے ہی دشمنی کا سامنا ہے۔
بھارت کے لیے بنگلہ دیش کے ساتھ مستحکم تعلقات اس لیے بھی ضروری ہیں کیونکہ شمالی بھارتی ریاستوں کی سرحدیں بنگلہ دیش کے ساتھ ملتی ہیں اور ان کے بنگلہ دیش کے ساتھ تجارتی روابط میں اضافہ ہوا ہے۔
نئی دہلی میں "سینٹر فار لینڈ وارفیئر اسٹڈیز "کے ڈائریکٹر تارا کارتھا کہتے ہیں کہ بھارت اس وقت حوالگی کے معاملے میں نرمی سے کام لے گا اور ڈھاکہ میں منتخب حکومت کے آنے کا انتظار کرے گا۔
بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس نے کہا ہے کہ ملک کے اگلے انتخابات 2025 کے آخر یا 2026 کے شروع میں ہوں گے۔ جب کہ یہ معاملہ آنے والے مہینوں میں پریشان کن صورت اختیار کر سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آ جائیں گے۔
کوگل مین کہتے ہیں کہ بھارت کو یہ معلوم تھا کہ بنگلہ دیش شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست کرے گا اور مجھے یقین ہے کہ ڈھاکہ کو بھی یہ اندازہ تھا کہ دہلی انکار کرے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ جب تعلقات خراب سطح پر ہوں تو مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کس چیز پر کام کر سکتے ہیں۔
(وی او اے نیوز)
فورم