|
ڈھاکہ میں ایک ہندو پنڈت کی حالیہ گرفتاری اور ان الزامات کے بعد، کہ ہندو ؤں کو مسلم اکثریتی ملک میں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے ۔
حالیہ ہفتوں میں بھارت میں ہندو گروپس نے بنگلہ دیش کے خلاف مظاہرے کیے ہیں ، لیکن بنگلہ دیش کے عہدے داروں کا کہنا ہےکہ ظلم و ستم کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی نیوز میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین غلط معلومات پھیلا رہے ہیں اور کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات اگست کے مہینے میں اس کے بعد سے کشیدہ ہوگئے ہیں جب طلبا کی زیر قیادت ایک شورش نے وزیر اعظم شیخ حسینہ کو اقتدار سے الگ کر دیا تھا جو بھارت فرار ہو گئیں اور وہاں پناہ لے لی ۔
پنڈت کرشنا داس کی گرفتاری
25 نومبر کو بنگلہ دیشی ہندو پنڈت کرشنا داس کو ڈھاکہ ائیر پورٹ سے بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ان پر ساحلی شہر چٹاگانگ میں اکتوبر کی ایک ریلی کے دوران بنگلہ دیشی قومی پرچم کے اوپر زعفرانی ہندو مت کا پرچم بلند کرنے کا الزام تھا۔
کرشنا داس ملک میں مذہبی اقلیتوں کے ایڈوکیٹ رہے ہیں۔ جولائی تک، وہ کرشنا بین الاقوامی سوسائٹی یا ISKCON کے رکن رہے، جسے ’ہرے کرشنا تحریک‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگنے کے بعد سوسائٹی سے نکال دیا گیا تھا۔
انکی گرفتاری نے ان کے حامیوں کے احتجاج کو جنم دیا، اور چٹاگانگ کورٹ ہاؤس کے باہر ایک مسلمان وکیل کو قتل کر دیا گیا۔
بھارت میں برہمی
پڑوسی ملک بھارت میں مظاہرین نے داس کی رہائی کا مطالبہ کیا، جو بدستور زیر حراست ہیں۔ ان کی ضمانت کیلئے اگلی سماعت 2 جنوری کوہو گی۔
ہندو گروپپوں نے ریلیاں نکالی ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی پر زور دیا ہے کہ وہ داس کی رہائی کے لیے ڈھاکہ پر دباؤ ڈالیں اور بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملوں کو روکنے کے لیے کارروائی کریں۔
بدھ کے روز، بھارت کی حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریاتی سرپرست، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی قومی کمیٹی کے رکن وی بھاگیا نے کہا کہ بنگلہ دیش میں ہندو "نسل کشی" کا شکار ہو چکے ہیں۔
بھاگیا نے حیدرآباد میں ایک ریلی میں کہا، ’’جب اقلیتی ہندوؤں کا قتل اور ریپ کیا جارہا ہے، اور ہندو مندروں اور املاک کو تباہ کیا جا رہا ہے، (محمد یونس کی قیادت والی) عبوری حکومت اس نسل کشی کو خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔‘‘
بھارتی فوج کے سابق افسر میجر جنرل گگندیپ بخشی نے کہا کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ظلم و ستم کو ختم کرنے کا، "واحد حل" مسلم اکثریتی بنگلہ دیش کے اندر ایک "ہندو قوم" کی تشکیل ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ ، "محمد یونس کی قیادت میں بنگلہ دیش بنیاد پرست جہاد کی طرف مائل ہو گیا ہے۔ وہ نسل کشی کے ذریعے اپنی ہندو اقلیتوں کو باہر نکالنا چاہتا ہے اور لگتا ہے کہ وہ لڑائی کے لیے بے چین ہے‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ،’’ بنگلہ دیش کو دو حصوں میں تقسیم کریں۔ بنگلہ دیشی ہندوؤں کے لیے ایک الگ ملک بنائیں۔‘‘
دو دسمبر کو مشتعل ہندو مظاہرین نے بھارت کی شمال مشرقی سرحدی ریاست تریپورہ میں بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمشنر کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی تھی۔
بنگلہ دیش کا ردعمل
یونس حکومت اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ حسینہ کی معزولی کے بعد ہندوؤں کو پرتشدد حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن حکام کا کہنا ہے کہ تشدد کا محرک مذہب نہیں بلکہ سیاست تھی۔
چٹاگانگ میٹروپولیٹن پولیس کے کمشنر حسیب عزیز نے کہا کہ بنگلہ دیش میں ہندو برادری کو پرتشدد طریقے سے نشانہ بنانے کا الزام " کلی طور پر بے بنیاد ہے"۔
عزیز نے VOA کو بتایا، ’’ یہ الزام کہ کرشناداس کو ہندو ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا، بے بنیاد ہے۔ ان پربغاوت کا الزام عائد کیا گیا تھا اور انہیں تشدد پر اکسانے اورکچھ تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں قانون کے مطابق گرفتار کیا گیا ہے۔ ''
’’کسی کو بھی منظم، ہندو مخالف نفرت پر مبنی حملوں میں نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہے۔‘‘
بنگلہ دیش کے سابق سفارت کار خلیل الرحمان نے VOA کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ اور بھارت میں دوسرے افراد نے غلط معلومات کی ایک مشترکہ مہم شروع کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندو "نسل کشی" کا سامنا کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کی قیادت کرنے والے چیف ایڈوائزر محمد یونس کے سینئر نمائندے خلیل الرحمان نے کہا، "وہ صرف بنگلہ دیش کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے دونوں ملکوں کے درمیان باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات کو بہتر بنانے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
خلیل الرحمان نے کہا کہ "ہمارے سیکرٹری خارجہ نے آج ڈھاکہ میں اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کی۔ ہمیں امید ہے کہ ہم اپنے دو طرفہ تعلقات کو مثبت سمت میں آگے بڑھانے کی کوششیں دیکھیں گے۔ یہ دونوں ملکوں اور خطے کے بہترین مفاد میں ہے"۔
ڈھاکہ یونیورسٹی میں بائیں جانب جھکاؤ رکھنے والی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس یونین کی صدر میگھملار باسو نے کہا کہ بنگلہ دیش میں کشیدگی اور تشدد کو "ہندوؤں کے خلاف نسل کشی" کہنا ایک " شرمناک جھوٹ" ہوگا۔
باسو نے، جو ایک ہندو ہیں ، کچھ ہندو مندروں اور مکانات پر بعض"سماج دشمن قوتوں"کے حملوں کا اعتراف کیا جنہوں نے حسینہ حکومت کے خاتمے کا فائدہ اٹھایا۔
'جعلی خبروں' کے الزامات
بہت سے لوگوں نے بھارت کے مرکزی دھارے اور سوشل میڈیا پر "جعلی خبریں" پھیلانے اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دینے کا الزام لگایا ہے۔
حقائق کی جانچ کرنے والی تنظیم "ریومر اسکینر" کے آپریشنز کے سربراہ سجاد حسین چودھری نے VOA کو بتایا کہ بھارتی میڈیا اور ہندوتوا قوم پرست ' ایکس اور فیس بک اکاؤنٹس عوامی لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے بنگلہ دیش کے بارے میں "جعلی خبریں" پھیلا رہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں خدمات انجام دینے والے ایک ریٹائرڈ امریکی سفارت کار جون ڈینیلوچز نے کہا ہےکہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ "لفظی جنگ" کس طرح کسی ملک کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ"سابق وزیر اعظم حسینہ کی اپنی میعاد ختم ہونے کی تاریخ گزر جانے کے بعد بھارت غلطی سے ان کی حمایت کرنے کے بعد، اپنی ناکام بنگلہ دیش پالیسی پر پہلے سے دو گنا زیادہ ڈٹا ہوا ہے۔ نوبیل انعام یافتہ محمد یونس پر یہ الزام کہ وہ ایک اسلامی حکومت کی قیادت کر رہے ہیں اور ہندو اقلیت کے خلاف نسل کشی سے صرف نظر کر رہے ہیں، مضحکہ خیز حد تک جھوٹ ہے۔"
ڈینیلوچز نے کہا کہ اگرچہ بھارتی بائیں بازو کا دھڑا حسینہ کے بعد کے بنگلہ دیش پربیان بازی کے حملوں کو "اسمارٹ ملکی سیاسی حکمت عملی" کے طور پر دیکھ سکتا ہے، لیکن اس سے بھارت کے طویل مدتی علاقائی مفادات کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
شیخ عزیز الرحمان وی او اے۔
فورم