گذشتہ جولائی میں شمالی بنگال میں دیناجپور ضلع کے شہر، اسلام پور میں 29 برس کی خواجہ سرا کو پہلی بار ’لوک عدالت‘ کی جج تعینات کیا گیا ہے۔
دیگر بھارتی ذرائع ابلاغ کے علاوہ، روزنامہ ’ہندستان ٹائمز‘ اور ’انڈین ایکسپریس‘ نے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ جویتا ماہی منڈل نے اپنا پرانہ پیشہ چھوڑ دیا ہے اور اب اُنھیں نجی تقریبات میں جا کر یا در در ناچ کر پیسے اکٹھے نہیں کرنے پڑتے۔
ایک انٹرویو میں، منڈل نے کہا ہے کہ ’’مجھے خوشی ہے کہ اب مجھے معاشرے میں عزت دار سمجھا جاتا ہے، جس کی مجھے کبھی تمنا تھی۔ اب عدالت میں آنے والے انصاف کی تلاش میں آتے ہیں اور مجھے ’سر‘ یا ’مادام‘ کہہ کر پکارتے ہیں‘‘۔
اس سے قبل، سوائے حقارت آمیز جملے کسے جانے کے، کچھ بھی خیال نہیں برتا جاتا تھا۔
بقول اُن کے، ’’لوگ مجھے محض ایک اچھوت گردانتے تھے، یہاں تک کہ مجھے گالیوں سے مخاطب کیا جاتا تھا۔ اب میری قسمت پھر گئی ہے؛ یہاں تک کہ لوگ مجھے اپنے خاندانی تنازعات میں مصالحتی کردار کے قابل سمجھتے ہیں‘‘۔
منڈل اُن خواجہ سراؤں میں سے ایک ہیں جنھیں حالیہ برسوں کے دوران سرکاری اور نجی شعبہ جات میں اہم مقام پر فائز کیا گیا ہے، جنھیں اپنی جنس سے برتے جانے والے تعصب اور حقارت کے خلاف آواز اٹھانی پڑتی تھی، یہاں تک کہ آئے دِن تعلیم اور ملازمت میں اُن کے ساتھ وسیع امتیازی سلوک کا سامنا رہتا تھا۔
سال 2014 میں بھارت کی عدالتِ عظمیٰ نے تیسری جنس کے حقوق کو تسلیم کیا، جب یہ حکم صادر ہوا کہ دوڑ میں پیچھے رہ جانے والی مخنث برادری کو تعلیم اور روزگار کی فراہمی کے حصول میں مدد دینے کے لیے اُن کا کوٹہ مقرر کیا جائے۔ اِس وقت، خواجہ سراؤں کے حقوق کا ایک بِل پارلیمان کے زیرِ غور ہے۔
منڈل نے بتایا ہے کہ اب تک اُنھوں نے چار مقدمات نمٹائے ہیں، جن میں بینک کے قرضوں کی نادہندگی اور مکان کے مالک اور کرایہ دار کے تنازعات شامل ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ ’’عام طور پر، ’لوک عدالت‘ تین ججوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ میرے ساتھی جج ہمیشہ انتہائی تعاون کرتے ہیں اور عزت کے ساتھ پیش آتے ہیں‘‘۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ معاشرے میں بُری نظروں سے دیکھنے والے اور جملے کسنے والے اب بھی موجود ہیں۔ بقول اُن کے، ’’کبھی کبھار، مجھے منفی تاثرات سے واسطہ پڑتا ہے، جب میں مقدمات میں فیصلہ سناتی ہوں۔ مثال کے طور پر مشکوک نظروں سے گھورنا یا اشارے کنائے۔ تاہم، میں یہ ضرور کہوں گی کہ کسی نے میری بے عزتی نہیں کی۔ کبھی کبھار، کچھ لوگ ششدر رہ جاتے ہیں کہ جج کی کرسی پر ایک خواجہ سرا براجمان ہے‘‘۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ اب اُنھیں کوئی شکایت نہیں۔ بقول اُن کے، ’’معاشرے کو بدلنے کے لیے مزید وقت درکار ہے، اور ہمیں اُسے وقت دینا ہوگا‘‘۔
عزت میں یکسر اضافے کے باوجود، منڈل کو پیسے کی دقت ضرور پیش آتی ہے، چونکہ پہلے اُن کی آمدن خاصی بہتر تھی، تقریبات میں فن کے مظاہرے میں اُنھیں کافی رقم مل جایا کرتی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ اب اُنھیں لوک عدالت کے بہت ہی کم الاؤنس پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔
لیکن، 2010ء میں کولکتہ کے نتاجی نگر کالج سے تاریخ کے مضمون میں آنرز کی سند لینے والی خواجہ سرا کہتی ہیں کہ پیسے کم ہی سہی، عزت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔