بھارتی سپریم کورٹ نے 2002ء کے گجرات فسادات میں وزیرِ اعلیٰ نریندرا مودی کے مبینہ رول پر فیصلہ سنانے سے انکار کرتے ہوئے، اِس معاملے کو احمد آباد میں متعلقہ مجسٹریٹ کے پاس بھیج دیا ہے۔
اُس نے مودی کے رول کی جانچ کرنے والی خصوصی تفتیشی ٹیم اور عدالت کے معاون رام چندرن کی رپورٹوں کی بنیاد پر نچلی عدالت کو کیس چلانے کے لیے قانونی عمل شروع کرنے کی ہدات دی ہے۔
یہ حکم جسٹس ڈی کے جین، جسٹس ستسوم اور جسٹس آفتاب عالم پر مشتمل بینچ نے احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں متعدد لوگوں کے ساتھ زندہ جلا دیے جانے والے سابق رکنِ پارلیمنٹ احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی عذرداری پر دیا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ نرینڈرا مودی اور 62سالہ سرکاری حکام نے ریاست گیر فسادات کو روکنے کے لیے جان بوجھ کر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔
عدالت نے کہا ہے کہ اُسے اب اِس معاملے کی نگرانی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اُس نے مزید کہا کہ اگر مجسٹریٹ اِس کیس کو بند کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اُنھیں ذکیہ جعفری کی عذرداری پر سماعت کرنی ہوگی۔ ذکیہ جعفری نے سپریم کورٹ کے حکم پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، یہ بھی کہا ہے کہ اُنھیں عدالت پر بھروسہ ہے اور وہ آگے بھی یہ لڑائی جاری رکھیں گی۔
نریندرا مودی کے رول کی جانچ کے لیے تفتیشی ٹیم کے قیام میں کردار ادا کرنے والی انسانی حقوق کی کارکن، تیستاسی سلواٹ نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اُن کا کم از کم ایک مطالبہ تو مان لیا گیا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے عدالتی حکم کو نریندر مودی کی جیت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اُن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جا سکا، جب کہ کانگریس کے مطابق سپریم کورٹ کا حکم نریندرا مودی کو اُن کے مبینہ رول سے بری نہیں کرتا۔