نامور بھارتی صحافی اور تجزیہ کار وِنود شرما نے پاکستان بھارت وزرائے خارجہ سطح بات چیت میں لیے گئے فیصلوں کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِس سے زیادہ کسی پیش رفت کی توقع بھی نہیں کی جارہی تھی۔
بدھ کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں وِنود شرما نے کہا کہ جو اصل کام ہوا ہے جِس پر کشمیری عوام کو خوش ہونا چاہیئے وہ یہ ہے کہ تجارت کے لیے جو ٹرک دو دِن چلا کرتے تھے وہ اب چار دِن چلا کریں گے۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ سفری اجازت نامہ 45دِنوں کے اندر اندر ملا کرے گا اور ملٹی إِنٹری ملا کرے گی جو چھ ماہ کے لیے کارگر ہوگی، جِس سے کشمیری عوام کو ایک دوسرے سے ملنے میں آسانی ہوگی۔‘
پچھلے ایک سال کے دوران دونوں ملکوں کے خارجہ سکریٹریوں کی سطح کے مذاکرات میں سر کریک اور سیاچین کے معاملات زیرِ بحث آتے رہے ہیں۔ لیکن، وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد اِس سلسلے میں کوئی بیان یا فیصلہ سامنے نہیں آیا۔
اِس بارے میں وِنود شرما کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان خاموش ڈپلومیسی ہونی چاہیئے۔ ٹیلی ویژن چنلز کے سامنے جا کر بیان دینے والی سفارت کاری نہیں ہونی چاہیئے۔ کیونکہ خاموش ڈپلومیسی کے نتائج زیادہ سودمند اور باقی رہنے والے ہوتے ہیں۔
اُنھوں نے پاکستان کے سکریٹری خارجہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کچھ ایسی باتیں ہوئی ہیں جِن کے بارے میں فی الحال بات نہیں کرنا چاہتے۔
وِنود شرما نے کہا کہ دونوں ملک اگر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بند کردیں تو اِسی طرح کی ملاقاتیں بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
اُنھوں نے ماضی قریب میں ممبئی میں ہونے والے دھماکوں کا حوالہ دیا جس میں ایک دوسرے پر کوئی چھینٹے نہیں اچھالے گئے۔ نہ پاکستان نےاور نہ ہی بھارت نے ایسا کیا۔ بیان بازی پر روک لگانے پر جو اتفاقِ رائے ہے وہ ایک ماحول تیار کرے گا جِس میں ہمارے ملکوں کےباشندے ذہنی طور پر ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔
اِس سوال پر کہ کیا کشمیر کی تجارت میں اضافے اور ویزوں کے اجرا میں نرمی سےدونوں ملکوں کے تعلقات میں کوئی فرق پڑے گا، اسلام آباد میں بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر پرویز اقبال چیمہ کا کہنا تھا کہ جب بھی عوام کے رابطے بڑھیں گے اِس سے یقیناً فرق پڑے گا کیونکہ اِس سے ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
لیکن، ڈاکٹر چیمہ کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کو گفت و شنید کا سلسلہ تواتر سے جاری رکھنا چاہیئے۔ اُن کے خیال میں ہر دوسرے مہینے اِن کے درمیان ملاقات ہونی چاہیئے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ کوئی ایک واقعہ ایسا ہوجاتا ہے جِس کے بعد باہمی بات چیت میں ایک تعطل واقع ہوجاتا ہے۔ اِس سلسلے میں اُنھوں نے 2008ء کےممبئی حملوں کا حوالہ دیا، جِس کے بعد ایک دو سال بات چیت بند رہی۔
اُن کے بقول، باہمی بات چیت کے عمل میں تعطل سے محض شدت پسندی کے ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں، اور یہ کہ تعطل کا شکار بات چیت کا عمل چھ ماہ کے اندر دوبارہ شروع ہوجانا چاہیئے تھا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: