رسائی کے لنکس

پاکستان بھارت کومکالمےکاعمل جاری رکھناچاہیئے:تجزیہ کار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حکومتوں کی طرف سے سفارت کاری ترتیب دینا اور مذاکرات کرنا ایک علیحدہ سطح ہے، جب کہ جو کام حکو متیں نہیں کر پاتیں وہ کام ہندوستان اور پاکستان کی سول سوسائٹی کی ذمہ داری بن جاتا ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ایک ایسا ماحول بنایا جائے جس کے دباؤ میں آکر سرکاری سطح پرخراب رشتوں کو ٹھیک اورمضبوط کیا جاسکے: ڈاکٹر منیش کمار

بھارت کی سبک دوش ہونے والی سکریٹری خارجہ کے اِس بیان پر کہ ممبئی حملوں کےتناظر میں پاکستان کے ساتھ مکالمے کے عمل کو بند کرنا شاید ایک غلطی تھی، اتوار کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں، سینئر بھارتی تجزیہ کارڈاکٹر منیش کمارکا کہنا تھا کہ بھارت اورپاکستان دونوں دہشت گردی کا شکار ہیں، اور یہ بات حیران کُن نہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ دشت گردی کی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے موزون حکمتِ عملی اپنائی جائے۔

ڈاکٹر منیش کمار نے رائے عامہ کی طرف دھیان مبذول کراتے ہوئے کہا کہ، نیروپما راؤ کا بیان ’ایک الگ بات ہے‘۔ لیکن، اُن کے الفاظ میں، ’ میں یہ سمجھتا ہوں کہ چونکہ ہمسائے بدلے نہیں جاسکتے اِس لیے ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھتے ہوئے اپنے تعلقات کو استوار کیا جانا چاہیئے، اور ضرورت اِس بات کی ہے کہ اپنے اپنے مؤقف کو سامنے رکھتے ہوئے مذاکرات کیے جائیں‘۔

بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کی طرف سے بنگلہ دیش کی جماعتِ اسلامی اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کے درمیان مبینہ رابطوں کے بیان پرڈاکٹر منیش کمارکےخیال تھا کہ، ’یہ، وزیر اعظم کو درپیش مسائل اور دباؤ کا ردِ عمل ہو سکتا ہے‘۔

اُن کے الفاظ میں، ’سمجھ میں نہیں آتا کہ وزیر اعظم نے بنگلہ دیش کے سلسلے میں یہ بیان کیوں دیا ‘۔ دباؤ کا ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ من موہن سنگھ کئی طرح کے دباؤ کا شکار ہیں، اور اُن کے بقول،’ وزیر اعظم کی سطح کےاِس بیان کو ہم بہت زیادہ ذمہ دارانہ بیان نہیں کہہ سکتے۔‘

پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد سازی کے لیے ٹھوس اقدام کرتے ہوئے ڈاکٹر منیش کمار نے دونوں ملکوں کے میڈیا اور سول سوسائٹی کے اہم کردار کا ذکر کیا۔ اِس سلسلے میں تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ دوطرفہ رشتوں کے حوالے سے ہمیں سرکاری اور نجی سطحوں کا فرق سامنے رکھنا ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ حکومتوں کی طرف سے سفارت کاری ترتیب دینا اور مذاکرات کرنا ایک علیحدہ سطح ہے جب کہ جو کام حکو متیں نہیں کر پاتیں وہ کام ہندوستان اور پاکستان کی سول سوسائٹی کی ذمہ داری بن جاتا ہے۔ اُن کے مطابق، ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم لوگ ایک ایسا ماحول بنائیں جس کے دباؤ میں آکر سرکاری سطح پر جو رشتے خراب ہورہے ہیں وہ مضبوط ہو سکیں۔

پاکستان کے ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی پاکستان کے بارے میں سبک دوش ہونے والی بھارتی سکریٹری خارجہ کے ’مثبت‘ اور بھارتی وزیر اعظم کے ’منفی‘ بیانات کے تناظر میں کہتے ہیں کہ لگتا ہے کہ، ’ ہم مختلف قسم کے سگنلز سن رہے ہیں۔ لیکن، اِس میں اچھی بات یہ ہے کہ اِن سگنلز سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں اِس وقت پاکستان سے تعلقات پر بحث ہو رہی ہے اور اب ہم یہی امید رکھتے ہیں کہ اِس بحث سے جو نتائج نکلیں گے اُس سے پاکستان ہندوستان کے ڈائلاگ کےعمل میں بہتری آئے گی، اور بھارت کی حکومت اِس نتیجے پر پہنچے گی کہ پاکستان کے ساتھ مکالمہ کرنا چاہیئے‘۔

ڈاکٹر رضوی کی رائےمیں، من موہن سنگھ پاکستان سےمکالمہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اُنھیں نوکرشاہی اور فوج کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہے۔ تجزیہ کار نے اس بات کی توقع کا اظہار کیا کہ یہ مشکلات جلد دور ہوجائیں گی اور پاکستان اور بھارت کے درمیان ڈائلاگ کا عمل ’بطریقِ احسن چلنا‘ شروع ہوجائے گا۔

اِس سوال کے جوا ب میں کہ آیا دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتر اور مثبت پیش رفت کا رویہ نظر آتا ہے، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے کہا کہ دونوں ملکوں کے اندر’ رویے میں ہم آہنگی نہیں ہے‘۔ اُن کے بقول، ہندوستان میں ایسے لوگ ہیں جو دوستی اور اچھے تعلقات کی بات کرتے ہیں، حکومت میں بھی کچھ لوگ یہ بات کرتے ہیں۔ لیکن، مخالفت والے بھی ہیں اور پاکستان میں بھی یہی حال ہے۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’یہی سب سے بڑی وجہ ہے ‘کہ دونوں حکومتیں اندرونی دباؤ میں ہوتی ہیں اور، اور اُن کے بقول، دونوں حکومتیں ذاتی طور پر چونکہ کمزور ہیں۔ لہذا وہ بعض دفعہ رائے عامہ سے ڈرتی ہیں۔

لیکن، ڈاکٹر رضوی نے کہا کہ، ’حقیقت میں اچھا لیڈروہ ہوتا ہےجورائےعامہ کوخاص ڈائریکشن میں لےجا سکتا ہو۔ میرا خیال ہےکہ ہندوستان کےوزیر اعظم من موہن سنگھ اِس پوزیشن میں ہیں کہ وہ رائے عامہ کو ایک طرف لے جاسکیں، کیونکہ اُنھیں سونیا گاندھی کی بھی حمایت حاصل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عملی طور پر کچھ تبدیلی ہوگی یا نہیں۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے، کیونکہ رائے عامہ تقسیم ہوئی ہوئی ہے۔‘

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG