واشنگٹن —
بھارت نے امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ امریکہ نے بھارتی سفارتکار دیویانی کھوبراگڑے کی گرفتاری اور برہنہ تلاشی کے معاملے پر ’کم درجے کا بحران‘ کھڑا کر دیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارتی سفارتکار دیویانی کھوبراگڑے واپس بھارت پہنچ چکی ہیں۔
بھارت کی طرف سے ہفتے کے روز سامنے آنے والے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
39 سالہ دیویانی کھوبراگڑے امریکی ریاست نیو یارک میں بھارت کی ڈپٹی قونصل جنرل کے طور پر خدمات سر انجام دے رہی تھیں۔ دیویانی کو گذشتہ برس دسمبر میں ویزا فراڈ اور امریکی حکام سے اپنی ملازمہ کو اجرت کم دینے کے معاملے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
دیویانی کھوبراگڑے کی گرفتاری اور برہنہ تلاشی سے بھارت میں احتجاجوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
بھارتی وزیر ِ داخلہ سلمان خورشید نے بھارتی نیوز چینل سی این این آئی بی این سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان اس واقعے سے آنے والی تلخی اور ’مِنی کرائسس‘ کو ٹالا جا سکتا تھا۔
بھارتی وزیر ِ خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکہ کو چاہیئے تھا کہ وہ بھارتی سفارتکار کو زیر ِ حراست لینے سے قبل بھارت کو اپنی سفارتکار تک رسائی فراہم کرتا۔
دوسری جانب اس سے قبل بھارت نے دیویانی کھوبراگڑے کی واپسی کے بعد امریکہ کو دہلی سے اپنا ایک سفارتکار واپس بلانے کا کہا تھا۔
امریکہ کا بھارتی مطالبے پر کہنا تھا کہ وہ بھارت کے مطالبے کے بعد نئی دہلی سے اپنے ایک سفارت کار کو واپس بلا لے گا، یہ فیصلہ دونوں ملکوں کے درمیان بظاہر سفارتی تناؤ کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
نئی دہلی سے واپس جانے والے امریکی سفارت کار کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ وائین مے ہوں گے۔
امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ دیویانی کھوبراگڑے کے خلاف عائد فرد جرم ختم نہیں کی گئی ہے اور اگر وہ امریکہ واپس آئیں تو اُنھیں قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق نیویارک میں بھارتی سفارت کار دیویانی کھوبراگڑے کو ویزا فراڈ اور اپنی گھریلو ملازمہ کو متعین کردہ اجرت سے کم رقم دینے کے امریکہ چھوڑنا پڑا اور امریکی سفارت کو نئی دہلی چھوڑنے کی صورت میں اس کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔
امریکہ محکمہ خارجہ کی ترجمان نے جمعہ کو کہا تھا کہ نئی دہلی سے امریکی سفارت کاری کی واپسی سے معاملہ اب ختم ہو جائے گا۔
ترجمان نے کہا کہ ہمیں اس بات پر افسوس ہے کہ بھارتی حکومت نے یہ ضروری سمجھا کہ امریکہ کے ایک سفارت کو ملک سے نکالا جائے۔
بھارت کی طرف سے ہفتے کے روز سامنے آنے والے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
39 سالہ دیویانی کھوبراگڑے امریکی ریاست نیو یارک میں بھارت کی ڈپٹی قونصل جنرل کے طور پر خدمات سر انجام دے رہی تھیں۔ دیویانی کو گذشتہ برس دسمبر میں ویزا فراڈ اور امریکی حکام سے اپنی ملازمہ کو اجرت کم دینے کے معاملے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
دیویانی کھوبراگڑے کی گرفتاری اور برہنہ تلاشی سے بھارت میں احتجاجوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
بھارتی وزیر ِ داخلہ سلمان خورشید نے بھارتی نیوز چینل سی این این آئی بی این سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان اس واقعے سے آنے والی تلخی اور ’مِنی کرائسس‘ کو ٹالا جا سکتا تھا۔
بھارتی وزیر ِ خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکہ کو چاہیئے تھا کہ وہ بھارتی سفارتکار کو زیر ِ حراست لینے سے قبل بھارت کو اپنی سفارتکار تک رسائی فراہم کرتا۔
دوسری جانب اس سے قبل بھارت نے دیویانی کھوبراگڑے کی واپسی کے بعد امریکہ کو دہلی سے اپنا ایک سفارتکار واپس بلانے کا کہا تھا۔
امریکہ کا بھارتی مطالبے پر کہنا تھا کہ وہ بھارت کے مطالبے کے بعد نئی دہلی سے اپنے ایک سفارت کار کو واپس بلا لے گا، یہ فیصلہ دونوں ملکوں کے درمیان بظاہر سفارتی تناؤ کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
نئی دہلی سے واپس جانے والے امریکی سفارت کار کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ وائین مے ہوں گے۔
امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ دیویانی کھوبراگڑے کے خلاف عائد فرد جرم ختم نہیں کی گئی ہے اور اگر وہ امریکہ واپس آئیں تو اُنھیں قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق نیویارک میں بھارتی سفارت کار دیویانی کھوبراگڑے کو ویزا فراڈ اور اپنی گھریلو ملازمہ کو متعین کردہ اجرت سے کم رقم دینے کے امریکہ چھوڑنا پڑا اور امریکی سفارت کو نئی دہلی چھوڑنے کی صورت میں اس کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔
امریکہ محکمہ خارجہ کی ترجمان نے جمعہ کو کہا تھا کہ نئی دہلی سے امریکی سفارت کاری کی واپسی سے معاملہ اب ختم ہو جائے گا۔
ترجمان نے کہا کہ ہمیں اس بات پر افسوس ہے کہ بھارتی حکومت نے یہ ضروری سمجھا کہ امریکہ کے ایک سفارت کو ملک سے نکالا جائے۔