ایک نئی تحقیق سے آلودگی کے باعث عناصر کی شناخت ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں بھارتی فن تعمیر کی معراج، تاج محل میں استعمال ہونے والا سنگ مرمر پیلا پڑتا جا رہا ہے۔
سفید سنگ مرمر کا رنگ ماند پڑنا، ایک مدت سے تشویش کا باعث رہا ہے۔
تاہم، اِس تازہ ترین تحقیق کے نتیجے میں یہ ممکن ہوجائے گا کہ 360 برس پرانی، محبت کی اِس لازوال یادگار کی رنگت بحال کرنے کا کوئی کارآمد حل میسر آسکے۔
یہ بات آنجنا پسریچا نے نئی دہلی سے اپنی رپورٹ میں بتائی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحقیق دانوں کی رائے میں سالہا سال سے دھنواں چھوڑنے والے ایندھن کا استعمال، جس میں حیاتیاتی گیس اور گندگی کے ساتھ ساتھ دھول کی آمیزش نے کاربن کے نشانات گہرے کر دیے ہیں، جس کے نتیجے میں تاج محل کا سفید سنگ مرمر کا گنبذ اور مینار مٹیالے اور پیلے پڑتے جارہے ہیں۔
سترہویں صدی عیسوی میں بننے والا یہ یادگار شمالی بھارت کے مصروف، صنعتی شہر، آگرے میں واقع ہے۔
مدتوں سے، اس مشہور یادگار کا رنگ پھیکا پڑنے کا سبب فضائی آلودگی پر دھرا جاتا رہا ہے۔ تاہم، امریکہ کی دو یونیورسٹیوں۔۔ جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ یونیورسٹی آف ونسکونسن۔۔ اور ایک بھارتی یونیورسٹی (خانپور میں قائم، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) اور آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا نے خاص اسباب کی شناخت کی ہے۔
تحقیق پر عمل درآمد کے لیے، تحقیق کاروں نے تاج محل کے بیش قیمت سنگ مرمر کے چھوٹے نمونے حاصل کیے، دو ماہ تک اُن پر کام کیا، پھر اُن کی سطح پر جمنے والے ذرات کا تجزیہ کیا گیا۔
تحقیقی کام میں شامل ایک محقق، پروفیسر ایس این ٹریپاتھی کا تعلق کانپور میں قائم انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ ذرات کے یہ نمونے کئی جگہوں سےحاصل کیے گئے۔
بقول اُن کے، ’آج کل ہمارے شہروں میں ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں، بڑی موٹر گاڑیوں، ٹرکوں کی بڑھتی ہوئی تعداد موجود ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے۔ پھر کالے کاربن اور آگنینک کاربن کے اخراج کا معاملہ ہے۔ پھر، حیاتیاتی گیس کا جلنا، خاص طور پر اس موسم میں جب لوگ سردی کو دور کرنے کے لیے جو کچھ اُنھیں میسر آتا ہے، اس سے تمازت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گھروں میں لکڑی جلانا، باہر گوبر اور ہر قسم کا کچرہ، جو آرگینک کاربن پھیلنے کے اہم اسباب ہیں‘۔
کئی برسوں سے، سرگرم کارکن متنبہ کرتے رہے ہیں کہ آگرے میں بڑھتی ہوئی آلودگی، تاج محل کے حسن کو متاثر کر رہی ہے۔
پچھلے ایک عشرے کے دوران، حکام نے اس یادگار کے 500 میٹر ارد گرد گاڑیوں کے چلنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ڈیزل جلنے کے عمل سے بڑھتی ہوئی آلودگی سے بچنے کے لیے، صنعتوں کو صاف و شفاف ایندھن کی فراہمی اور بجلی کی رسد کو بہتر بنانے پر زور دیا جارہا ہے۔
تاہم، یہ اقدامات کرنے کے باوجود، سنہ2010 میں مرتب کیے گئے ایک تجزئے سے پتا چلا کہ صرف آگرے ہی میں صعنت، آبادی اور ٹریفک کی بے دریغ افزائش کے باعث فضائی آلودگی خراب سے بدتر صورت اختیار کر گئی ہے۔
تاریخی عمارات کی دیکھ بھال پر مامور ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس یادگار کے تحفظ کے لیےاہداف کا تعین کرکے باضابطہ کام کیا جائے۔
سنہ 2013 میں اس یادگار کو دیکھنے والوں کی تعداد تقریبا ً 60 لاکھ تھی، جس عمارت کو مغل تعمیرات اور بھارتی فن تعمیر کا معرکة الآرا نمونا قرار دیا جاتا ہے۔