بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے2008ء میں حکومت بچانے کے لیے بعض ارکانِ پارلیمنٹ کو رشوت دینے کے الزام کو سختی سے مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت کا کوئی بھی شخص ووٹوں کی خریدو فروخت میں شامل نہیں تھا۔
اُنھوں نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بیان دیتے ہوئے حزبِ اختلاف پر جارحانہ حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے پرانے الزامات اٹھائے جا رہے ہیں جِن کو عوام نےبحث و مباحثے کے بعد مسترد کردیا ہے۔
وِکی لیکز کے إِس انکشاف پرکہ تحریکِ عدمِ اعتماد کے دوران حکومت کے حق میں ووٹ دینے کے لیے’راشٹریا لوک دَل‘ کے ارکان کو دس دس کروڑ روپے دیے گئے تھے، دو روز سے پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپہ ہے اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں وزیرِ اعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
وزیرِ اعظم نے امریکی سفارت خانے اور امریکی وزارتِ خارجہ کے مابین اِس سلسلے کے کیبل پیغامات کی سچائی پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اِس کی صداقت کی توثیق نہیں کرسکتی۔
اِس سے قبل، ’انڈیا ٹوڈے‘ کی طرف سے منعقدہ مکالمے کی تقریب میں بولتے ہوئے من موہن سنگھ نے کہا کہ اُنہوں نے کسی کو بھی ووٹوں کی خرید کے لیے مجاز نہیں بنایا تھا۔اُن کے بقول، میں نے کسی کو بھی ووٹ خریدنے کا مجاز نہیں بنایا تھا۔ ایسے کسی بھی اقدام کا مجھے عمل نہیں ہے اور میں ایسی کسی بھی سودے بازی میں ملوث نہیں تھا۔
من موہن سنگھ کے اِس بیان پر اپوزیشن مطمئن نہیں ہے۔ اُس کی جانب سے حکومت کے استعفے کا مطالبہ جاری ہے۔