رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں نئی سیاسی جماعت کے قیام کی کوششیں


سری نگر میں صحافی اپنے لیپ ٹاپ لہرا کر طویل عرصے سے جاری انٹرنیٹ کی پابندیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
سری نگر میں صحافی اپنے لیپ ٹاپ لہرا کر طویل عرصے سے جاری انٹرنیٹ کی پابندیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دی جا رہی ہے، جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ جموں و کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس اور اس کی روایتی حریف پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی متبادل ہوگی۔

حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے خیال میں، ساتھ ہی یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مختصر وقت میں یہ نئی سیاسی جماعت اس قابل بن جائے کہ مجوزہ اسمبلی انتخابات میں مد مقابل سیاسی جماعتوں کا فعال طور پر مقابلہ کر سکے۔

بھارتی حکومت اور مقامی انتظامیہ ان انتخابات کو اسی سال کرانے کے حق میں ہیں۔ تاہم، نئی دہلی میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنا یہ مطالبہ دہرایا ہے کہ عام انتخابات سے پہلے جموں و کشمیر کی نئی انتخابی حد بندی کی جائے۔

بی جے پی کو توقع ہے کہ نئی انتخابی حد بندی کے نتیجے میں ہندو اکثریتی جموں کے خطے کو وادی کشمیر، جہاں کُل آبادی کا 97 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے، کے مقابلے میں زیادہ نشستیں ملیں گی جو اس کے اقتدار میں آنے کے لیے راہ ہموار کر سکتا ہے۔

نئی پارٹی میں شامل ہونے والے لوگ کون ہیں؟

نئی سیاسی جماعت کے اراکین کی زیادہ تعداد پی ڈی پی کے اُن لیڈروں اور کارکنوں پر مشتمل ہوگی جو حال ہی میں پارٹی چھوڑ کر چلے گئے یا پھر انہیں پارٹی مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں اس سے نکال دیا گیا تھا۔

ان لیڈروں اور اراکین نے گزشتہ تین ہفتے کے دوران ہم خیال سیاسی لیڈروں کے ساتھ بھارتی زیرِ انتظام سری نگر اور جموں میں کئی اجلاس کیے ہیں جن کے دوران مجوزہ پارٹی کے خد و خال اور دوسرے اہم امور پر غور و خوض کیا گیا۔

سیاسی جمود توڑنے کی کوشش

بتایا جاتا ہے کہ اس سارے گروپ کی قیادت جموں و کشمیر کے ایک سابق وزیر سید الطاف بخاری کر رہے ہیں، جنہیں مقامی سیاسی حلقوں میں نئی دہلی میں برسرِ اقتدار گروپ کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ وہ وفاقی حکومت کی اُن درپردہ کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بھی پیش پیش ہیں جن کا مقصد جموں و کشمیر میں گزشتہ پانچ ماہ سے جاری سیاسی جمود توڑنے کے لیے بھارت نواز مقامی سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کو آگے لا رہے ہیں، جن میں کئی سابق وزیر اور قانون ساز ادارے کے سابق ارکان پیش پیش ہیں۔

بھارتی کنٹرول کے جموں و کشمیر کے سابق وزیر سید الطاف بخاری
بھارتی کنٹرول کے جموں و کشمیر کے سابق وزیر سید الطاف بخاری

واضح رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کر کے ریاست کو براہِ راست وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں تقسیم کیا۔ اس کے ساتھ ہی ریاست میں سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کی گرفتاری، بندشوں اور مواصلاتی بلیک آؤٹ کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ ان سخت گیر اقدامات کے نتیجے میں سابقہ ریاست بالخصوص وادی کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئیں۔ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور دوسری علاقائی جماعتیں آئینِ ہند کی دفعہ 370 کو جس کے تحت ریاست کو خصوصی پوزیشن حاصل تھی اور جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو بحال کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

مبصرین کے مطابق، بھارتی حکومت کی طرف سے ان سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کی مبینہ حوصلہ افزائی نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی جماعتوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں نے دفعہ 370 کو منسوخ کرنے اور جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے کے بی جے پی حکومت کے اقدام کی بھرپور مخالفت کی ہے۔ وہ سیاسی لیڈروں کی فوری رہائی، ہر قسم کی بندشوں اور انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز پر عائد پابندی ہٹانے کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں۔

پی ڈی پی پر الطاف بخاری کا اُلٹا وار

الطاف بخاری کو جو ایک کامیاب تاجر بھی ہیں ایک سال پہلے مبینہ پارٹی مخالف سرگرمیوں کی پاداش میں پی ڈی پی سے نکال دیا گیا تھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 2015 میں پی ڈی پی اور بی جے پی کو قریب لانے میں ایک اہم رول ادا کیا تھا۔ بعد میں انہیں پی ڈی پی کے سر پرست مفتی محمد سعید اور صدر محبوبہ مفتی کی قیادت میں قائم کی گئی پی ڈی پی-بی جے پی مخلوط حکومتوں میں اہم قلمدان سونپے گیے۔

لیکن، جون 2018 میں بی جے پی نے مخلوط حکومت سے علحیدہ ہونے کا اعلان کیا۔ محبوبہ مفتی حکومت کے گرنے کے ساتھ ہی پی ڈی پی کے کئی لیڈر اور سرکردہ کارکن جن میں سابق وزیر اور ممبرانِ قانون سازیہ بھی شامل تھے پارٹی چھوڑنے لگے۔ الطاف بخاری سیمت کئی ایک کو پارٹی مخالف سرگرمیوں کے الزام میں پی ڈی پی سے نکال دیا گیا۔

بھارتی کنٹرول کے جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی،فائل فوٹو
بھارتی کنٹرول کے جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی،فائل فوٹو

تجزیہ نگار اور یونیورسٹی آف کشمیر کے پروفیسر ریاض حسن کہتے ہیں، "الطاف بحاری نے اُس وقت خاموشی اختیار کی تھی۔ لیکن، اب وہ پی ڈی پی پر در پردہ الٹا وار کر رہے ہیں۔ لگتا ہے وہ اپنی خواہش اور منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوششوں میں کامیاب ہو رہے ہیں"۔

تاہم، اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ پی ڈی پی کے کئی سابق لیڈروں اور کارکنوں نے الطاف بخاری کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے اور کئی اور پارٹی چھوڑ کر ان سے ملنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔

پی ڈی پی ایک ڈوبٹا ہوا جہاز!

مبصرین کے مطابق، پی ڈی پی اب ایک ڈوبتا ہوا جہاز لگ رہی ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اس کے ایک درجن سے زائد لیڈروں اور سرکردہ کارکنوں کو یا تو "جموں و کشمیر کے مفادات اور پارٹی نظریے کے خلاف جانے" کے الزام میں پارٹی سے نکال دیا گیا یا وہ ازخود اسے چھوڑ کر چلے گیے۔

بتایا جاتا ہے کہ پی ڈی پی اقتدار کھونے کے وقت سے ہی مشکل حالات سے دوچار ہے۔

تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے

پی ڈی پی کو 1999 میں قائم کیا گیا تھا۔ اسے نیشنل کانفرنس کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی، بلکہ پی ڈی پی نے 2002 کے اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل کر کے اسے اقتدار سے بے دخل کر دیا اور پھر کانگریس کے ساتھ مل کر ریاست میں ایک مخلوط حکومت قائم کی۔

چھ سال کے وقفے کے بعد پی ڈی پی 2015 میں ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آ گئی۔ لیکن پارٹی لیڈر جن میں محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں یہ برملا اعتراف کر چکے ہیں کہ ''مخلوط حکومت بنانے کے لیے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانا اس کی ایک ایسی فاش غلطی تھی''، جس کا، بقول ان کے، ''اسے بار بار خمیازہ بھگتنا پڑا''۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG