رسائی کے لنکس

کیا بھارت میں ہم جنس پرستوں کو شادی کی اجازت ملنے والی ہے؟


بھارت کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کی شادی کو قانونی پر تسلیم کرنے کے لیے دائر درخواست کو پانچ رُکنی بینچ کے حوالے کر دیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے مطابق یہ بنیادی اہمیت کا حامل معاملہ ہے جس پر 18 مارچ کو سماعت ہو گی۔

قبل ازیں چھ جنوری کو سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کی شادی کے قانونی جواز سے متعلق ماتحت عدلیہ میں داخل درخواستوں کو سپریم کورٹ بھجوانے کی ہدایت کی تھی۔ ان میں ہم جنسی کی شادی کو ہندو میرج ایکٹ (ایچ ایم اے)، اسپیشل میرج ایکٹ (ایس ایم اے) اور فارین میرج ایکٹ (ایف ایم اے) کے تحت تسلیم کیے جانے کی اپیل کی گئی ہے۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پیر کو ان درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ان درخواستوں میں ایک طرف آئینی حقوق اور دوسری طرف اسپیشل میرج ایکٹ سمیت خصوصی قانون سازی کا پہلو ہے اور دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔

بینچ کے مطابق عدالت میں دائر کی گئی درخواستوں کے وسیع تناظر، آئینی نظام اور آئینی حقوق کے درمیان باہمی تعلق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارا خیال ہے کہ یہ مناسب ہوگا کہ اٹھائے گئے مسائل کو پانچ ججز کے آئینی بینچ کے ذریعے حل کیا جائے۔

واضح رہے کہ اس سلسلے میں مختلف ہائی کورٹس میں 15 درخواستیں داخل کی گئی تھیں۔ سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر حکومت کو نوٹس جاری کرکے جواب مانگا تھا۔

حکومت نے ہم جنسی کی شادی کو تسلیم کیے جانے کی درخواستوں کی مخالفت کی ہے۔ سولیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ ایسی شادیوں کو تسلیم کیے جانے کا معاملہ قانون سازی کا معاملہ ہے۔

حکومت نے ہم جنسی کی شادی کو تسلیم کیے جانے کی بارہا مخالفت کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر اسے تسلیم کیا گیا تو معاشرے پر اس کے بھیانک اثرات مرتب ہوں گے۔


حکومت کا کہنا تھا کہ بھارت میں میاں بیوی اور بچوں سے خاندان کا تصور بنتا ہے۔ ہم جنس پرستی کی شادی اس تصور کے منافی ہے۔ اسے تسلیم کرنے سے اس تصور کا توازن بگڑ جائے گا۔

یاد رہے کہ بھارت میں ہم جنس پرستی کو دفعہ 377 کے تحت غیر قانونی قرار دیا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے 2018 میں مذکورہ دفعہ کو منسوخ کرکے اسے جائز قرار دے دیا۔ تاہم اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جنس پرست جوڑوں کو شادی کرنے کا حق ہے۔

سماجی و مذہبی ماہرین بھی ہم جنس پرستی کی شادی کی مخالفت کرتے ہیں۔

سماجی امو رکے ماہر اور سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر بال مکند سنہا کا کہنا ہے کہ "سپریم کورٹ اسے بنیادی اہمیت کا حامل معاملہ مانتی ہے لیکن میرے نزدیک اس معاملے کی کوئی اہمیت اور معنویت نہیں ہے۔"

بقول ان کے چوں کہ چیف جسٹس آف انڈیا بھارتی عدلیہ کے سربراہ ہیں لہٰذا ان کو ہر معاملے کو قانونی نقطہ نظر سے دیکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس معاملے کو پانچ رکنی آئینی بینچ کے حوالے کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بعض وجوہ سے کچھ لوگ اسے ایک بڑا مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ہم جنس پرستی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مذہبی لٹریچر، قدیم تاریخ اور جدید ادب میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ جنوبی بھارت کے کئی حصوں میں ہم جنس پرستی موجود ہے۔ لیکن یہ جو کچھ بھی ہے پردے میں ہے۔

ان کے خیال میں جن سماجی و مذہبی روایات نے ہم جنسی کو تسلیم نہیں کیا انہی روایات نے شادی جیسے ادارے کو جنم دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم جنس پرست افراد ان تمام سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو شادی شدہ مرد و عورت اٹھاتے ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اب اس کو ازدواجی حیثیت دلانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ ان کے خیال میں یہ ایک یورپی فیشن ہے اور یہاں کا سماج اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔

مذہبی شخصیات بھی اس کی مخالفت کرتی ہیں۔ ان کے مطابق بیشتر معاشروں میں اس عمل کی موجودگی کے باوجود اسے معیوب سمجھا جاتا ہے اور کسی بھی مذہب میں ہم جنسی کی شادی کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے سماج پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔

ڈاکٹر بال مکند کہتے ہیں کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسے تسلیم کرنے کے اثرات سماج کے تمام طبقات پر یکساں ہوں گے۔ سماج بھی کئی قسم کا ہوتا ہے۔ سماج کا ایک طبقہ مغربی تہذیب سے متاثر ہے۔ لیکن دوسرا طبقہ مذہبی معاملات میں بہت سخت ہے۔ لہٰذا اگر ہم جنسی کی شادی کو تسلیم کر لیا گیا تو سماج کے الگ الگ طبقات پر اس کے الگ الگ اثرات مرتب ہوں گے۔


قانونی ماہرین کے مطابق اب جب کہ اس معاملے کو پانچ رکنی آئینی بینچ کے حوالے کر دیا گیا ہے تو دیکھنا ہوگا کہ بینچ کیا مؤقف اختیار کرتا ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اسد علوی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اگر چہ ہم جنس پرستی کو قانونی جواز حاصل ہو گیا ہے لیکن ہم جنسی کی شادی کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ بہت سے لوگ ایسی شادیوں کی اجازت کے لیے عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں اور عدالتیں ایسی درخواستیں خارج کر دیتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے ایک سینئر وکیل سوربھ کرپال کی مثال پیش کی اور کہا کہ چوں کہ وہ ہم جنس پرست ہیں اور ایل جی بی ٹی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے سپریم کورٹ کی کمیٹی کی سفارش کے باوجود حکومت نے انہیں جج نامزد کرنے سے انکار کر دیا گیا۔

واضح رہے کہ ہائی کورٹ کا جج نامزد کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی کمیٹی نے جسے کالجیم کہتے ہیں، 2017 میں سینئر وکیل اور سابق چیف جسٹس آف انڈیا بی این کرپال کے بیٹے سوربھ کرپال کے نام کی سفارش کی تھی۔ لیکن حکومت نے گزشتہ سال نومبر میں اسے مسترد کر دیا۔

سوربھ کرپال نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے جنسی مزاج اور رویے کی وجہ سے انہیں جج نہیں بنایا جا رہا ہے۔ وہ ’گے برادری‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کا پارٹنر ایک غیر ملکی ہے لہٰذا اسے ’سیکورٹی رسک‘ بھی سمجھا گیا۔

اسد علوی کے مطابق کسی بھی پرسنل لا میں ہم جنسی کی شادی کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ قانونی تشریح اور قانون سازی کا معاملہ ہے۔ جب تک اسپیشل میریج ایکٹ میں اس کی گنجائش نہیں نکالی جاتی اس معاملے میں تضاد باقی رہے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر عدالت اسے جائز قرار بھی دے دے تو بھی اس کا نفاذ مشکل ہوگا۔

ادھر ہم جنس پرست جوڑوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والوں کا کہنا ہے کہ دفعہ 377 کی منسوخی کے بعد ہم جنس پرست جوڑوں کی شادی اگلا منطقی قدم ہوگا۔ ان کے مطابق مخصوص جنسی مزاج اور رویے کی وجہ سے کسی کو شادی کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

دہلی ہائی کورٹ میں 2020 میں پٹیشن داخل کرنے والے ابھیجیت ایر مترا کا کہنا تھا کہ ہندو میرج ایکٹ میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ان میں ’ہم جنس اور مخالف جنس‘ کے ساتھ شادی میں کوئی امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ اس قانون کی شق پانچ میں دو ہندوؤں کے درمیان شادی کی بات کہی گئی ہے۔

دوسرے درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ اسپیشل میرج ایکٹ ایک سیکولر قانون ہے۔ اس کی شق چار میں دو افراد کے درمیان شادی کی بات کہی گئی ہے۔ اس میں میاں بیوی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس لیے ہم جنسی کی شادی کو قانونی جواز ملنا چاہیے۔

اس وقت دنیا کے 32 ملکوں میں ہم جنسی کی شادی کو قانونی جواز حاصل ہے۔ ان میں امریکہ، برطانیہ، ارجنٹائن، آسٹریلیا، آسٹریا، بیلجیم، برازیل، کناڈا، کولمبیا، ڈنمارک، ایکواڈور، فرانس، جرمنی، آئرلینڈ، مالٹا، میکسیکو، نیوزی لینڈ، ناروے، پرتگال، ساؤتھ افریقہ، اسپین، تائیوان اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG