پاکستان کے سابق سفارت کاروں اور خارجہ پالیسی کے مبصرین نے چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کو اہم پیش رفت قرار دیا ہے اور اس کے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔
اسلام آباد کے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تاریخی اعتبار سے قریبی تعلقات رہے ہیں البتہ ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان محاذ آرائی نے پاکستان کے لیے خارجہ محاذ پر مشکلات پیدا کیں۔
پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ یہ پیش رفت خطے اورا س سے باہر امن و استحکام میں معاون ثابت ہوگی۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس پر مبصرین کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت کے مسلم دنیا اور پاکستان پر دور رس اثرات ہوں گے۔
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سابق مندوب ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی اہم سفارتی پیش رفت ہے جو کہ خطے کے لیے گم چینجر ثابت ہوگی۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سات برس سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سرد جنگ چل رہی تھی جس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے۔ پاکستان کی کئی دہائیوں سے یہ پالیسی رہی ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں توازن رکھا جا سکے کیوں کہ ریاض اسلام آباد کا اسٹریٹجک شراکت دار ہے جب کہ ایران اس کا اہم پڑوسی ملک ہے۔
ملیحہ لودھی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے ایران کو تنہا کرنے کی پالیسی کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔
ان کے بقول ایران سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بہتری سے پاکستان کے لیے سفارتی راہ ہموار ہوگی جب کہ اسلام آباد تہران سے اپنے تعلقات کو بڑھا سکے گا جس کے ضرورت بھی ہے۔
مسلم دنیا پر اثرات
عالمی امور خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ پر نظر رکھنے والی ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کو ایک بے مثال تاریخی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کی تمام تر سیاست ایران اور سعودی عرب کی محاذ آرائی کے گرد گھومتی ہے۔ اگر یہ معاہدہ کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے مسلم دنیا پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوں گے۔
وہ کہتی ہیں کہ مسلم دنیا میں یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے لیکن پاکستان خراب معاشی صورتِ حال کے سبب مغرب پر انحصار کیے ہوئے ہے، لہذا وہ اس تبدیلی میں محتاط انداز میں آگے بڑھے گا۔
ہما بقائی کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور ایران تعلقات کی بحالی کے مشرقِ وسطیٰ اور روس یوکرین جنگ پر فوری اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور خطے پر اس کے مثبت اثرات ہونے چاہئے البتہ اس میں کچھ وقت لگے گا۔
چین کا عالمی کردار
سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات جنوری 2016 کے آغاز میں اس وقت منقطع ہوئے تھے جب سعودی عرب نے غیر ملکیوں سمیت47 افراد کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام میں پھانسی دی تھی۔ ان افراد میں شیعہ عالم آیت اللہ باقر النمر بھی شامل تھے۔ ان کو پھانسی دیے جانے کے بعد ایران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر مظاہرین نے حملہ کیا تھا اور اس سے آگ لگانے کی کوشش کی تھی۔ بعد ازاں ریاض نے تہران سے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کا معاہدہ چین کے صدر شی جن پنگ کی کوشش سے ہوا ہے۔ اپنے مشترکہ بیان میں ریاض اور تہران نے اس اقدام پر چین کی قیادت کا شکریہ ادا کیا ہے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن کو معاہدے کی اطلاعات پر تشویش ہے لیکن یمن میں جنگ کے خاتمے اور مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی کمی کے لیے کسی بھی کوشش کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔
مبصرین سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی میں چین کے ثالثی کے کردار کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے بیجنگ کا امن کے لیے عالمی کردار سامنے آ رہا ہے۔
تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کے کردار سے چین نے خود کو امن کے قیام کے لیے عالمی رہنما ثابت کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں امن کے حوالے سے یہ کردار امریکہ ادا کرتا تھا۔ اب چین بھی عالمی قائد کے طور پر سامنے آچکا ہے۔
ان کے بقول بیجنگ کے اس کردار کو مغرب یقینی طور پر پسند نہیں کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا مزید تیزی سے سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
اس حوالے سے ملیحہ لودھی نے کہا کہ ایران سعودی عرب تعلقات کی بحالی میں ثالثی سے چین کا مشرِق وسطیٰ میں کردار اور اثر و رسوخ بڑھے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے خطے میں رابطہ سازی بڑھے گی اور تجارتی راہیں کھلیں گی۔
پاکستان ایران گیس پائپ لائن
مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ نئی صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام آباد کو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر کام میں تیزی لانی چاہیے۔
ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر سعودی عرب کی ناراضی اور مغرب کی پابندیوں کے سبب پیش رفت نہیں ہو سکی اور اب اسلام آباد کو اپنی توانائی کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے اس پر توجہ دینی چاہیے۔
اس حوالے سے ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں ایران سب سے بہتر اور آسان ذریعہ ہے لیکن ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر اسلام آباد کی طرف سے کوتاہی برتی گئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ آسان راستہ نہیں ہوگا۔ مغرب اور امریکہ پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے کیوں کہ واشنگٹن کی نظر میں اسلام آباد کی پہلے جیسی اہمیت نہیں رہی۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے مالی تعاون بھی درکار ہے۔
فرقہ واریت میں کمی کا امکان
پاکستان میں فرقہ واریت کے مسئلے میں سعودی عرب اور ایران کے پس پردہ ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے اگرچہ سفاری مصلحت کے سبب اس کا اعلانیہ اظہار نہیں کیا گیا لیکن عوامی سطح پر سعودی عرب اور ایران کی طرف سے فرقہ وارانہ تنظیموں کی مالی معاونت پر بے چینی پائی جاتی ہے۔
دونوں ممالک میں تعلقات کی بحال پرسوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا سعودی عرب اور ایران میں تعلقات بہتر ہونے سے پاکستان میں ان کے مفادات کی لڑائی ختم ہوسکے گی؟
اس حوالے سے ڈاکٹر ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تعلقات کی بحالی سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بھی ختم ہو جائے گی۔
ان کے بقول تعلقات کی بحالی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان طاقت کا مقابلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ البتہ مستقبل میں دیکھنا ہوگا کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بحال ہونے کا فرقہ واریت پر کیا اثر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ سعودی عرب خود کو اب ایک لبرل اسٹیٹ کے طور پر منوانا چاہتا ہے۔ اس کے ایران سے تعلقات کی بہتری کے بعد پاکستان میں مذہبی گروہوں کو دونوں ملکوں سے ملنے والی مالی مدد میں کمی ہو سکتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ جب مالی امداد بند ہوجائے گی تو پاکستان میں فرقہ واریت میں بھی کمی آئے گی کیوں کہ جب کسی ریاست کی پالیسی بدلتی ہے تو اس کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔