یوسف جمیل
جھڑپ سنیچر کو علی الصباح جنوبی ضلع اننت ناگ کے علاقے دیالگام میں اُس وقت شروع ہوئی جب بھارتی سیکیورٹی فورسز نے وہاں ایک نجی گھر میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن شروع کیا۔
طرفین کے درمیان جھڑپ کے دوران لشکرِ طیبہ کا معروف کمانڈر بشیر احمد وانی عرف بشیر لشکری اور اُس کا ساتھی آزاد احمد ملک ہلاک ہو گئے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ایک نجی مکان میں محصور عسکریت پسندوں کے ساتھ کئی گھنٹے تک ہلکے ہتھیاروں سے فائرنگ کے تبادلے کے بعد دھماکہ خیز مواد اور مارٹر توپوں کا استعمال کرکے دو منزلہ عمارت کو اُڑادیا جس کے ساتھ ہی عسکریت پسندوں کی فائرنگ رُک گئی اور پھرعہدیداروں نے یہ اعلان کردیا کہ دونوں عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔
حکومت نے بشیر لشکری کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی۔
عہدیداروں نے بتایا کہ بشیر لشکری اننت ناگ کے اچھہ ول علاقے میں 16 جون کو مقامی پولیس کی ایک گاڑی پر گھات لگاکر کئے گئے حملے میں ملوث تھا۔ اس حملے میں ایک اسٹیشن ہاؤس آفیسر فیروز احمد ڈار سمیت چھہ پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔
عہدیداروں نے حملے کو بدلے کی کارروائی قرار دیدیا تھا – حملہ اننت ناگ ہی کے آرونی گاؤں میں فوج کے ساتھ ایک مقابلے میں لشکرِ طیبہ کے ضلع کمانڈر جنید متو اور اُس کے ایک ساتھی کے ہلاک ہوجانے کے فوراً بعد کیا گیا تھا اور اس کی ذمہ داری لشکرِ طیبہ نے قبول کی تھی۔ اس واقعے کے بعد حفاظتی دستوں نے بشیر لشکری کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔
عہدیدار کاکہنا ہے کہ بشیر لشکری کی ہلاکت عسکریت پسندوں کے خلاف چلائی جارہی فوجی مہم کی ایک بڑی کامیابی ہے
جھڑپ کے آغاز پر ایک مقامی خاتون 44 سالہ طاہرہ بیگم گولیوں کی زد میں آکر شدید زخمی ہوگئی ۔ اُسے اننت ناگ کے ایک اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکی۔ ایک اور شہری شاداب احمد بھی تشدد کا شکار ہوگیا جبکہ علاقے میں مظاہرین پر سیکیورٹئ فورسز کی فائرنگ میں ایک درجن سے زیا دہ افراد زخمی ہوگئے ۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حفاظتی دستوں نے جب دیالگام کے برتنی بٹہ پورہ گاؤں میں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کردیا تومقامی لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور نعرے لگاتے ہوئے اُس مکان کی طرف بڑھنے لگے جہاں عسکریت پسند چھپے ہوئے تھے۔
عہدیداروں نے بتایا مشتعل ہجوم نے آپریشن میں رخنہ ڈالنے کی دانستہ کوششیں کیں تاکہ عسکریت پسندوں کو بھاگنے کا موقع فراہم ہوسکے۔
مظاہرین پر سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران پانچ شہریوں کے گولیاں اور چھرے لگے جبکہ نصف درجن سے زائد دوسرے افراد آنسو گیس کے گولوں لاٹھی چارج کے نتیجے میں زخمی ہوگئے۔ ان میں سے ایک 21 برس کے شاداب کو جب سرینگر کے ایک اسپتال لایا گیا تو ڈاکٹروں نے اُسے مُردہ قرار دیدیا۔
مقامی لوگوں نے الزام لگایا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور اُس گھر کے مکینوں کو باہر آنے سے روکا جہاں عسکریت پسند محصور تھے۔
سرینگر میں ایک پولیس ترجمان نے بتایا کہ بچاؤ کارروائی کے دوران 17 شہریوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔
آپریشن کے آغاز پر اننت ناگ ضلع میں موبائل انٹرنیٹ سروسز معطل کی گئیں ۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے ایک اتحاد نے بھارتی مسلح افواج پر اس کے اپنے الفاظ میں انہیں حاصل لامحدود اختیارات کا فائدہ اُٹھا کر اور صوبے میں نافذ کالے قوانین کی آڑ میں مقامی مسلمانوں کو چُن چُن کر ہدف بنانے کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ یہ نسل کُشی کے مترادف ہے۔
اتحاد نے یہ الزام بھی لگایا کہ سنیچر کو مارے گئے دونوں شہریوں اور زخموں کو فوج اور نیم فوجی دستوں نے جان بوجھ کر نشانہ بنایا- اس نے واقعے کے خلاف نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں اتوار کے روز ایک عام احتجاجی ہڑتال کرنے کی اپیل جاری کردی ہے۔