بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر میں ایک مشتعل ہجوم کے تشدد سے ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا ہے۔
واقعہ جمعرات کی شب سری نگر کی تاریخی جامع مسجد کے باہر پیش آیا۔
عینی شاہدین کے مطابق کشمیر پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد ایوب پنڈت اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ سادہ لباس میں مسجد کے باہر تعینات تھے۔
نمازِ عشا اور تراویح کی ادائیگی کے بعد جب لوگ ہجوم کی صورت میں اور بھارت سے آزادی کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے مسجد سے باہر آرہے تھے تو پولیس افسر نے مبینہ طور پر اپنے موبائل فون سے ان کی عکس بندی شروع کردی۔
اس موقع پر بعض افراد نے ویڈیو بنانے پر اعتراض کرتے ہوئے پولیس افسر سے اپنی شناخت ظاہر کرنے کے لیے کہا۔
اس موقع پر محمد ایوب پنڈت اور ہجوم میں شامل بعض مشتعل نوجوانوں کے درمیان توتکار کے بعد نوبت ہاتھا پائی تک پہنچی تو پولیس افسر نے اپنی سائیلنسر لگی پستول نکال کر ہجوم پر فائرنگ کردی جس سے تین نوجوان زخمی ہوگئے۔
فائرنگ کے بعد مشتعل ہجوم نے پولیس افسر کو تشدد کا نشانہ بنایا جس سے ان کی موت واقع ہوگئی جب کہ پولیس افسر کے دونوں ساتھی موقع سے فرار ہوگئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ڈپٹی سُپرنٹنڈنٹ اور ان کے ساتھی مسجد کے باہر نگرانی اور انسداد تخریب کاری کی ڈیوٹی پر تعینات تھے۔
بھارتی کشمیر کے پولیس سربراہ شیش پال وید نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ پولیس افسر مسجد کے باہر لوگوں کی حفاظت اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تعینات تھے کہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر نماز ادا کرسکیں۔
اس واقعے پر بھارتی کشمیر کے سیاسی اور سماجی حلقوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی طرف سے بھی سخت ناراضگی کا اظہار کیا جارہا ہے۔
سرکردہ مذہبی رہنما اور استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے ایک اتحاد کے سربراہ میرواعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ وہ انتہائی دکھی ہیں اور اس گھناؤنی حرکت کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہجوم کی طرف سے تشدد اور کسی کو سرِ عام مار مار کر موت کے گھاٹ اُتارنا، ہماری اقدار اور مذہب کی طرف سے مقرر کردہ حدود سے باہر حرکتیں ہیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ مقامی پولیس صوبے میں جاری شورش اور بدامنی سے نمٹنے کے دوراں صبرو تحمل سے کام لے رہی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اس کا واسطہ اپنے لوگوں سے ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پولیس اہلکاروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو حالات خطرناک رُخ اختیار کرسکتے ہیں۔
واقعے کے بعد جمعے کو سرینگر کے پرانے شہر میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے کرفیو جیسی پابندیاں نافذ رہیں جس کے باعث جامع مسجد میں ماہِ رمضان کے آخری جمعے یعنی جمعۃ الوداع کا اجتماع نہیں ہوسکا۔
میرواعظ عمر فاروق نے اس اقدام مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1947ءمیں مُطلق العنان ڈوگرہ دورِ حکومت کے خاتمے کے بعد کشمیر کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مسلمانوں کو سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں جمعۃ الوداع کی ادائیگی سے روکا گیا ہے۔