یوسف جمیل
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی سب سے بڑی بھارت نواز اپوزیشن پارٹی نیشنل کانفرنس کی قیادت نے پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے اس بیان پر ان کی نکتہ چینی کی ہے کہ وہ جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید کے ایک بہت بڑے حامی ہیں اور انہوں نے بھارتی کشمیر میں لشکرِ طیبہ کی سرگرمیوں کی ہمیشہ تائید کی ہے۔
جنرل (ر) مشرف نے یہ مبینہ بیان ایک پاکستانی ٹیلی وژن چینل اے آر وائی نیوز کو دیا ہے- بھارتی ذرائع ابلاغ نے بدھ کے روز پاکستان کے سابق صدر کے اس بیان کو نمایاں انداز میں کوریج دی ۔ اپنے انٹرویو میں مشرف نے الزام لگایا تھاکی بھارت نے امریکہ کے ساتھ ساز باز کرکے لشکرِ طیبہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے میں کامیابی حاصل کرلی۔
ان کے اس بیان کے رد عمل میں نیشنل کانفرنس کے کار گذار صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے سماجی ویب سائٹ ٹیوٹر پر لکھا "شاید اب ہمارے ہاں (بھارت) کی کچھ نیوز چینلز اور اینکر اس شخص کا انٹرویو کرنے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے سے باز رہیں گے۔ صاف طور پر جنرل مشرف پاکستان میں قدم جمانے کے لئے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں"
عمر عبد اللہ کے والد فاروق عبد اللہ نے، جو نیشنل کانفرنس کے صدر ہیں اور نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے تین بار وزیرِ اعلیٰ رہ چکے ہیں، مشرف کے بیان پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے ایک المناک لمحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بات پر بے حد دکھ ہے کہ ایک ایسے رُتبے کا شخص جو پاکستان کا صدر اور ملک کی فوج کا سربراہ رہ چکا ،ہے اس طرح کسی ایسی سرگرمی اور اس میں ملوث شخص کی تعریف کرے گا جس کے مضمرات سب پر واضح ہیں۔ یہ ایک رنج دہ لمحہ ہے۔
فاروق عبد اللہ نے سرینگر میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا- "کوئی بھی دہشت گرد تنظیم نہ صرف اس ملک کو تباہ کرنے والی ہے جہاں وہ سرگرم ہے بلکہ ہر ایک ایسے ملک کو جہاں دہشت گردی کو فروغ دیا جا رہا ہو"۔
انہوں نے بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی پر زور دیا کہ وہ ایسے اقدامات کریں جو پاکستان کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کی بحالی کے لئے راہ ہموار کر سکیں تاکہ دہشت گردی کا مِل جُل کر قلع قمع کیا جا سکے۔ انہوں نے دونوں ملکوں کو ماضی کو فراموش کرکے آگے بڑھنے اور دونوں ملکوں کے عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں میں جُٹ جانے کا مشورہ دیا۔
فاروق عبداللہ نے دلی کی تہاڑ جیل میں قید کشمیریوں پر کئے گئے ایک حالیہ حملے کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ بھارت کی مختلف جیلوں میں بند کشمیریوں کو ان کی جانوں کو لاحق خطرے کے پیش نظر ریاست کی جیلوں میں منتقل کیا جائے۔
نیشنل کانفرنس کے صدر نے کہا کہ ان قیدیوں سے سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انسان ہونے کی حیثیت سے ان کے کچھ حقوق ہیں جن کا احترام لازمی ہے لہٰذا ان پر جیل کے اندر حملہ کرنا ناقابلِ قبول اور قابلِ مذمت فعل ہے۔