یوسف جمیل
جمعرات کی شام اور جمعہ کے روز پیش آئے الگ الگ واقعات میں 8 پولیس اہل کار، 3 عسکریت پسند اور اتنی ہی تعداد میں عام شہری بھی تشدد کا نشانہ بنی گئے۔
پولیس اہل کاروں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری کالعدم گروپ لشکرِ طیبہ نے قبول کر چکا ہے۔
عہدیدار کا کہنا ہے کہ پولیس اہل کاروں کو حفاظتی دستوں کے ساتھ ایک مقابلے میں لشکرِ طیبہ کے معروف کمانڈر جنید متو اور اُس کے دو ساتھیوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لئےہلاک کیا گیا۔
بھارت کے وزیرِ دفاع ارون جیٹلے نے اسے ایک بزدلانہ حرکت قرار دیدیا- صوبے کے پولیس سربراہ شیش پال وید نے کہا ہے کہ حملہ آوروں کو عنقریب کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔
یہ مقابلہ جنوبی ضلع اننت ناگ کے آرونی علاقے میں پیش آیا تھا۔
آرونی میں محصور عسکریت پسندوں کے خلاف شروع کئے گئے فوجی آٌپریشن کے دوران ایک ہجوم پر حفاظتی دستوں کی فا ئرنگ سے دو مقامی نوجوان ہلاک اور کئی دوسرے شہری زخمی ہوگئے۔
تازہ ہلاکتوں کے بعد مسلم اکثریتی وادئ کشمیر میں عوامی مظاہروں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیاہے۔ اس دوران کئی مقامات پر مشتعل نوجوانوں نے پولیس اور نیم فوجی دستوں پر پتھراؤ کیا اور حفاظتی دستوں نے جوابا" اُن پر اشک آور گیس چھوڑی اورربڑ کی گولیاں اور چھرے چلائے۔ پتھراؤ اور حفاظتی دستوں کی طرف سے طاقت کے استعمال کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔
سنیچر کے روز شہریوں کی ہلاکتوں پر احتجاج کرنے کے لئے ایک عام ہڑتال کی گئی۔ جس کی اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے ایک اتحاد نے کی تھی جس کے بعد بیشتر تعلیمی ادروں میں تعطیل اور امتحانات ملتوی کرنے کا اعلان کردیا گیا تھا۔
حساس علاقوں میں کرفیو یا کرفیو جیسی پابندیاں نافذ کی جارہی ہیں - ٹرین سروسز جزوی طور پر معطل اور تھری جی اور فور جی موبائیل انٹرنیٹ سروسز بند کردی گئی ہیں۔
سرکردہ آزادی پسند لیڈر اور مذہبی راہنما میرواعظ عمر فاروق نے سرینگر میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئےکہاکہ نوجوانوں کی شہادت اور بے گناہوں کا مارا جانا ہمیں پست ہمت نہیں کرسکتا بلکہ اس سے تحریکِ مزاہمت کو استحکام مل رہا ہے اور یہ ہماری حق پر مبنی جدوجہد اور عزائم کو جِلا بخش رہے ہیں۔
ہفتے کے روز ہلا ک ہونے والے عسکریت پسندوں کے جنازہ جلوسوں میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے، جن میں چند جنگجو بھی شامل تھے ، جنہوں نے اپنے ساتھیوں کی میتوں کو چوما اور پھر ہوا میں گولیوں کے کئی راونڈ چلائے۔
پولیس اہل کاروں کی تدفین میں بھی ان کے ساتھیوں ، رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ عام لوگوں شامل ہوئے۔
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری خون ریزی پر اظہارِ خیال کرنے کے لئے کئی لوگوں نے سوشل میڈیا کارخ کیا۔ ایک یوزر نے اپنے فیس بُک وال پر لکھا کہ مارنے والا جو بھی ہو حقیقت یہ ہے کہ آج مزید 14 کشمیری مائیں اپنے پیارے بیٹوں کی ہلاکتوں کا ماتم کررہی ہیں۔