بھارتی ذرائع ابلاغ نے بھارتی حکومت سے دریافت کیا ہے کہ کیا امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ہمراہ دئے گئے بیان کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی میں خفیہ طور پر کوئی تبدیلی واقع ہو رہی ہے؟
وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی باضابطہ ملاقات سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ان کے اچھے دوست ہیں اور خود انہوں نے، کچھ عرصہ قبل، ان سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی درخواست کی تھی۔
نئی دہلی سے ٹوئیٹ میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان، رویش کمار نے کہا ہے کہ ’’ہم نے امریکی صدر کا بیان دیکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر بھارت اور پاکستان ان سے کشمیر پر ثالثی کے لیے کہیں، تو وہ اس کے لیے تیار ہیں‘‘۔
رویش کمار نے کہا کہ ’’وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی‘‘؛ اور مزید کہا کہ ’’دونوں ملکوں کا مؤقف یہی ہے کہ وہ دوطرفہ مسائل کا باہمی حل تلاش کرنے پر زور دیتے ہیں‘‘۔
بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ نے میڈیا سے اس بات چیت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے لکھا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس بیان سے بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی میں کسی خفیہ تبدیلی کے اشارے ملتے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ کیا اس بیان پر بھارتی حکومت صدر ٹرمپ کو جھوٹا قرار دے گی یا پھر حقیقت میں بھارت نے تیسرے فریق کی ثالثی قبول کرتے ہوئے خفیہ طور پر اپنی روایتی پالیسی تبدیل کر لی ہے۔
کانگریس کے ترجمان، رندیپ سورج والا نے اپنی جماعت کی طرف سے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے کسی تیسری طاقت کو ثالثی کی درخواست دینا بھارت کے قومی مفادات کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ لہذا، وزیر اعظم مودی کو اس کا جواب دینا ہو گا۔
اخبار ’دا ہندو‘ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی اس پیشکش سے کشمیر کے معاملے میں امریکی پالیسی بدلتی دکھائی دے رہی ہے۔
’این ڈی ٹی وی‘ کا کہنا ہے کہ بھارت ہمیشہ سے کسی تیسرے فریق کی جانب سے مسئلہ کشمیر میں مداخلت یا ثالثی کے سخت خلاف رہا ہے، جبکہ پاکستان نے اقوام متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی فورمز پر کسی تیسرے فریق کی طرف سے ثالثی پر زور دیا ہے۔
صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم مودی کی حالیہ ملاقات جاپان کے شہر اوساکا میں G-20 سربراہ اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان بھی وہاں موجود تھے۔ تاہم، پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان کوئی باضابطہ براہ راست ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
نریندر مودی ستمبر میں امریکہ کا سرکاری دورہ کرنے والے ہیں۔