رسائی کے لنکس

بھارتی اخباروں میں نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کی بھرپور کوریج


فائل
فائل

نئی دہلی اور ملک کے دیگر شہروں سے شائع ہونے والے انگریزی، اردو اور ہندی کے متعدد روزنامہ اخبارات نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو بدعنوانی کے معاملے میں سنائی جانے والی سزا پر نمایاں انداز میں مضامین اور رپورٹیں شائع کی ہیں۔

کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ’ہندوستان ٹائمس‘ نے لکھا ہے کہ ’’فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی کو بھی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ فیصلہ مریم نواز کے تمام سیاسی امکانات کے لیے بڑا دھچکہ ہے‘‘۔

احتساب عدالت نے انتخابات کے انعقاد سے 20 روز قبل یہ فیصلہ سنایا جس سے پاکستان مسلم لیگ کو جسے حالیہ رائے شماری کی رپورٹوں میں سبقت حاصل تھی، ایک نیا چیلنج درپیش ہے۔ حالانکہ فیصلے سے نواز شریف کے ووٹروں میں ہمدردی کی لہر اٹھ سکتی ہے۔ لیکن اس سے عام رائے دہندگان کو شاید متاثر نہ کیا جا سکے۔ مختصر یہ کہ یہ فیصلہ عمران خان کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ اب اقتدار میں آنے کے ان کے امکانات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔

ایک اور کثیر الاشاعت اخبار روزنامہ ’ٹائمس آف انڈیا‘ لکھتا ہے کہ ’’بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے قومی انتخابات کو بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ 25 جولائی کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات پاکستان پر گہری نظر رکھنے والوں کے لیے انتہائی دلچسپی کے حامل ہیں۔ وہاں متعدد واقعات اور رجحانات بیک وقت سامنے آرہے ہیں۔ جو بھی انتخابی نتیجہ برآمد ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ پاکستانی فوج کو پہلے سے زیادہ طاقت حاصل ہو جائے گی‘‘۔

ڈیلی نیوز انالیسس (ڈی این اے) کے مطابق ’’فیصلے سے پاکستان مسلم لیگ نون کے امکانات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ مریم نواز اور ان کے شوہر صفدر کو سزا ہونا پارٹی کے لیے اور بھی نقصاندہ ہے‘‘۔

روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ بھی فیصلے کو حسب توقع قرار دیتا ہے۔ مضمون نگار نروپما سبرامنیم کے خیال میں اگرچہ یہ فیصلہ نواز شریف اور مریم نواز کے لیے بہت سخت ہے پھر بھی اس سے ان کی سیاسی واپسی ہو سکتی ہے۔ یہ فیصلہ 2016 میں پناما پیپرس مقدمہ میں آنے والے فیصلے کے بعد سے ہی نوشتہ دیوار تھا۔ اس فیصلے کو عام طور پر فوج کی حمایت سے کی جانے والی عدالتی بغاوت کے طور پر دیکھا گیا۔

اخبار کے مطابق تازہ فیصلہ پاکستان مسلم لیگ نون کے سیاسی امکانات کے لیے نقصاندہ ہے۔ اگر انتخابات میں نواز شیرف کی پارٹی کی شکست ہوتی ہے تو ان کے امکانات مزید محدود ہو جائیں گے۔

ہندی روزنامہ ’دینک ہندوستان‘ کے مطابق ’’فیصلے سے سب سے بڑا سوال یہ ابھر کر سامنے آیا ہے کہ کیا پاکستان کے سب سے قد آور سیاسی خاندان کے لیے سیاست میں واپسی کے تمام راستے مسدود ہو گئے ہیں‘‘۔

مزید یہ کہ ’’یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ انتخابات میں ان کی پارٹی کے امکانات تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔ اگر کچھ امید ہے تو ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والے ووٹوں سے ہے‘‘۔

ہندی روزنامہ ’دینک جاگرن‘ کے مطابق ’’سروے رپورٹوں میں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف میں کانٹے کی ٹکر کا اندازہ لگایا جا رہا تھا۔ لیکن اب پانسہ پلٹنے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ممکن ہے کہ ایک سال کے اندر عمران خان کی مقبولیت میں آٹھ گنا اضافہ ہوا ہے‘‘۔

اردو اخباروں نے بھی اس خبر کو نمایاں انداز میں شائع کیا ہے اور بعض اخبارات نے اپنے تجزیوں میں فیصلے کو نواز خاندان کے لیے نقصان کا باعث قرار دیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG