ہندوستان میں چائے کی فصل دو سو سال قبل انگریزوں نے متعارف کرائی تھی۔ دو صدیوں پہ محیط اس عرصے میں ہندوستان میں چائے کی تجارت اور کاشت میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوپائی ۔ تاہم اب اس صنعت میں کچھ مثبت تبدیلیوں کا ظہور ہورہا ہے۔
ہندوستان میں چائے کی کاشت کا مرکز دارجلنگ ہے جہاں اس صنعت سے وابستہ کسان اور مزدور کہر میں گھری پہاڑیوں پر واقع چائے کے باغات سے تازہ کونپلیں چننے کا کام برسوں سے انجام دیتے آرہے ہیں۔ ان باغات میں کام کرنے والے کسانوں اور مزدوروں کا شمار بھارت کے غریب ترین افراد میں ہوتا ہے۔ تاہم اب ان لوگوں نے اپنی زندگی بدلنے کی ٹھان لی ہے۔ اب یہ لوگ اپنی ذاتی سطح پر کیمیائی چائے کی کاشت کرکے بہتر آمدنی کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
بندانا رائے کا شمار ایسے ہی کسانوں میں ہوتا ہے جو اپنا طرزِ زندگی بدلنا چاہتی ہیں ۔ بندانا نے حال ہی میں ایک مقامی چائے کی کمپنی میں بحیثیت شراکت دار شمولیت اختیار کی ہے۔ "آرگینک ایکتا" نامی اس کمپنی کی داغ بیل تین سال قبل ایک امریکی غیر سرکاری فلاحی تنظیم "مرسی کارپ اینڈ تازو" کے تعاون سے ڈالی گئی تھی جو کہ معروف امریکی کافی فرم "اسٹار بکس" کی ملکیت ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں "آرگینک ایکتا" کے شراکت داروں کی تعداد 20 سے بڑھ کر 300 تک پہنچ گئی ہے۔
بندانا رائے کہتی ہیں کہ کمپنی انہیں ان کی کاشت کردہ چائے کی پتیوں کی بہتر قیمت ادا کررہی ہے جس سے ان کے بقول ان کی آمدنی میں تین گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس اضافی آمدنی سے انہوں نے اپنے گھر میں نیا باورچی خانہ تعمیر کرایا ہے جبکہ وہ اپنے دو کم سن بیٹوں کو بھی ایک قدرے بہتر اسکول میں داخل کرانے کے قابل ہوسکی ہیں۔
مثبت تبدیلی
چار پشتوں سے چائے کے کاروبار سے وابستہ اور "آرگینک ایکتا" کے ایک اہم خریدار راجہ بینرجی کہتے ہیں کہ اس کمپنی اور اس کے کاروبار کے نتیجے میں آنے والی تبدیلی نے ان کسانوں اور مزدوروں کے حال اور مستقبل کو امید کی ایک نئی کرن سے روشن کیا ہے۔
بینرجی کہتے ہیں کہ دارجلنگ کی چائے کی صنعت گزشتہ کئی سالوں سے زوال پذیر تھی۔ تاہم ان کے مطابق " آرگینک ایکتا" اور اسی قبیل کی دیگر شراکت دار کمپنیوں کی آمد سے صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ اس نئے طرزِ تجارت سے متاثر ہو کر خود بینر جی نے اپنی "ماکائبری ٹی اسٹیٹ" سے وابستہ کارکنوں کو اپنے کاروبار کے حصص بیچ کر انہیں اپنا شراکت دار بنانا شروع کردیا ہے۔
بینر جی سمجھتے ہیں کہ اگر آپ لوگوں سے بہترین کارکردگی کے حصول کے خواہاں ہیں تو زیریں سطح کے کارکنوں کو اپنے کاروبار میں شریک بنا لینے سے بہترراستہ اور کوئی نہیں۔ ان کے الفاظ میں "اگر آپ کو یہ علم ہو کہ یہ گائے آپ کی ذاتی ملکیت ہے، تو آپ خود اس سے زیادہ سے زیادہ دودھ حاصل کرنے کی فکر کرینگے"۔
خدشات و امکانات
تاہم کچھ مبصرین سوال اٹھاتے ہیں کہ آیا "آرگینک ایکتا" جیسی شراکت دار کمپنیاں "مرسی کارپ اینڈ تازو" جیسے مضبوط پشت پناہوں کے بغیر بھی اپنا وجود برقرار رکھ پائینگی ۔
فی الوقت تو یہ کمپنیاں علاقے کی چائے کی صنعت سے وابستہ نچلے درجے کے کارکنوں اور چھوٹے کسانوں کیلیے فائدے مند ثابت ہورہی ہیں۔ تاہم یہ دیکھا جانا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چل پائے گا یا نہیں۔
سنجے شرما دارجلنگ کے چند بڑے فارمز میں شمار کیے جانے والے "گلین برن ٹی اسٹیٹ" کے کرتا دھرتا ہیں۔ وہ کہتے ہیں انہوں نے مصنوعی ذرائع استعمال کرکے تیار کی جانے والی اس چائے کی کاشت کی کوشش کی تھی تاہم انہیں اس میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مطابق انہیں اس صنعت میں اپنا مقام برقرار رکھنے کیلیے کہیں زیادہ مقدار میں اس چائے کی پیداوار کرنی پڑ رہی تھی اور پھر اس کیلیے مناسب قیمت کا انتظار بھی جو ان کیلیے ایک مشکل کام تھا۔
شرما کہتے ہیں کہ کیمیائی چائے کی کاشت مہنگی جبکہ پیداوار کم ہے لہذا ان کیلیے اسے اختیار کرنا خاصا دشوار ہوگا۔ اسی لیے وہ سمجھتے ہیں کہ "آرگینک ایکتا" کا متعارف کردہ ماڈل بھارتی چائے کی صنعت کیلیے موزوں نہیں۔
تاہم چائے پراجیکٹ کے ڈائریکٹر روبن پرابھان اس رائے سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی چائے کی صنعت میں اصلاحات متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ ان کی رائے میں "آرگنیک ایکتا" ایک ایسی تبدیلی تھی جسے دارجلنگ میں موجود چائے کی صنعت کو ضرورت تھی۔ انہیں یقین ہے کہ دارجلنگ کی چائے کی صنعت کا مستقبل اسی ماڈل پر استوار ہوگا۔
پرابھا ن کہتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب بھارتی چائے کی صنعت سے وابستہ کارکنوں کی انجمنیں اپنی اپنی فیکٹریوں کی مالک ہونگی، جہاں وہ چائے کی پتیوں کو پراسس، پیک اور قریبی منڈیوں میں فراہم کرکے بہتر منافع کمائینگی۔