دہشت گردی کے الزام میں مقدمے کا سامنا کرنے والے ایک قدامت پسند انڈونیشی عالمِ دین نے خود پر عائد الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا ہے۔
72 سالہ ابو بکر بشیر کے خلاف مقدمے کی کاروائی کاآغاز پیر کے روز دارالحکومت جکارتہ کی ایک عدالت میں ہوا۔ دینی راہنما کو سینکڑوں پولیس اہلکاروں کے پہرے میں عدالت لایا گیا جبکہ اس موقع پر وہاں ان کے حامیوں نے زبردست نعرے بازی کی۔
ابو بکر بشیر کو 2002ء میں انڈونیشی جزیر بالی کے بم دھماکوں کی ذمہ دار دہشت گرد تنظیم ’جماعہ اسلامیہ‘ کا روحانی لیڈر قرار دیا جاتا ہے اور ان پر اس سے قبل بھی دو مرتبہ دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمات چلائے جاچکے ہیں۔
اس بار ان پر مغربی صوبہ آچے میں دہشت گردوں کے ایک تربیتی کیمپ کے قیام میں مدد اور مالی اعانت فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جس کا انکشاف گزشتہ سال کے شروع میں ہوا تھا۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ ابو بکر بشیر نے آچے میں دہشت گردی کے کیمپ کےلیے ایک لاکھ40 ہزار ڈالرز سے زائد کی رقم اکٹھی کی تھی، تاکہ وہاں پردہشت گردوں کو بم دھماکوں اور قاتلانہ کی تربیت فراہم کی جاسکے۔
استغاثہ کے دعویٰ کے مطابق ابوبکر بشیر نے اس سلسلے میں دہشت گرد تنظیم کے سربراہ دالمتین سے ملاقات بھی کی تھی۔ دالمتین گزشتہ سال مارچ میں ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔
ابو بکر بشیر پر ’جماعہ اسلامی‘ کے ارکان کو دہشت گردانہ حملوں، قتل و غارت اور ڈکیتیوں جیسے جرائم پر اکسانے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔
پیر کے روز سماعت کے دوران عدالت کے سامنے ان پر عائد کیے جانے والے الزامات پڑھ کر سنائے گئے، جسے ملزم نے بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔عدالت کے روبرو اپنے بیان میں ابو بکر بشیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ اسلام کے دفاع اور مفاد کےلیے کیا۔
الزمات ثابت ہونے کی صورت میں ابو بکر بشیر کو عمر قید یا موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔