رسائی کے لنکس

انڈونیشیا: بخار کی دوا سے 150 بچوں کی اموات، دوا ساز کمپنیوں کے خلاف کارروائی


انڈونیشیا میں ایک میڈیکل اسٹور پر چسپاں ایک اعلان میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے بخار کی دوا عارضی طور پر دستیاب نہیں ہے۔
انڈونیشیا میں ایک میڈیکل اسٹور پر چسپاں ایک اعلان میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے بخار کی دوا عارضی طور پر دستیاب نہیں ہے۔

انڈونیشیا کے خوراک اور ادویات کے نگران ادارے ’بی پی او ایم‘ نے 150 سے زیادہ بچوں کی اموات کی تحقیقات کے بعد پیر کو دو مقامی ادویہ ساز کمپنیوں کے بخار کا شربت بنانے کے لائسنس یہ کہتے ہوئے منسوخ کیے ہیں کہ وہ کمپنیاں دوا تیار کرنے کے قواعد کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق بخار کی دوا سے بچوں کے گردوں کو شدید نقصان پہنچا تھا جس کی وجہ سے ان کی موت ہوئی۔ ہلاک ہونے والے بچوں میں بیشتر کی عمر پانچ برس سے کم تھی۔

نگران ادارے کے اس فیصلے سے قبل انڈونیشیا نے دوا کے طور پر استعمال کی جانے والے کچھ ایسی ادویات پر عارضی طور پر پابندی عائد کی تھی جن میں دو کیمیائی مرکبات ایتھلین گلیکول اور ڈائی تھیلین گلیکول کی موجودگی کی نشاندہی ہوئی تھی۔

ان مرکبات کے بارے میں شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ان کی وجہ سے بچوں کے گردوں کو شدید نقصان پہنچا۔

یہ دونوں مرکبات صنعتی شعبے میں استعمال کیے جاتے ہیں البتہ انہیں ایک اور دوا گلیسرین کے ایک سستے متبادل کے طور پر بعض دواؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ گلیسرین کا زیادہ تر استعمال کھانسی کے شربت میں ہوتا ہے۔

خوراک اور ادویات کے نگران ادارے ’بی پی او ایم‘ کے سربراہ پینی کے کوکیٹو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ شربت بنانے والی دو ادویات ساز کمپنیوں پی ٹی یونیورسل فارماسوٹیکل انڈسٹریز اور پی ٹی یارینٹوڈو فارما ٹاما کے لائسنس منسوخ کیے گئے ہیں۔

بی پی او ایم نے ان کمپنیوں کے خلاف فوجداری مقدمہ چلانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

پینی کے کوکیٹو نے کہا کہ ان دونوں کمپینوں نے اپنی دواؤں میں غیر معیاری اجزا کا استعمال کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ کمپنیاں حکومت کے مقرر کردہ قواعد کے مطابق ادویات کے اجزا میں تبدیلی کے بارے میں متعلقہ ادارے کو اطلاع دینے میں بھی ناکام رہیں۔

پی ٹی یارینٹوڈو فارما ٹاما نے اپنے ایک بیان میں ادویات میں غیر معیاری اجزا استعمال کرنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بی پی او ایم نے ان کی ادویات کے اجزا میں تبدیلی کی 2020 میں اجازت دی تھی اور اس کی تقسیم سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

پی ٹی یونیورسل فارما سوٹیکل انڈسٹریز کے وکیل نے اس بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کیا اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں ۔

انڈونیشیا میں بخار کے شربت سے بچوں کی ہلاکت کے متعدد واقعات کے بعد حکام میڈیکل اسٹوروں کا معائنہ کر رہے ہیں۔
انڈونیشیا میں بخار کے شربت سے بچوں کی ہلاکت کے متعدد واقعات کے بعد حکام میڈیکل اسٹوروں کا معائنہ کر رہے ہیں۔

انڈونیشیا میں اگست میں چھوٹے بچوں کے گردوں میں شدید خرابی کے باعث اموات میں اضافہ ہوا تھا، جس کے بارے میں وزیرِ صحت نے کہا تھا کہ اس کی وجہ ممکنہ طور پر کھانسی اور بخار کے شربت میں استعمال کیے جانے والے اجزا میں تبدیلی ہے۔

انڈونیشیا کی وزارتِ صحت کے مطابق ان کا ملک دواؤں میں استعمال کیا جانے والا زیادہ تر خام مال چین اور بھار ت سے درآمد کرتا ہے۔

انڈونیشیا کے صحت کے حکام نے کہا ہے کہ دونوں ادویات ساز کمپنیوں کی مذکورہ دواؤں میں استعمال کیے جانے والے خام اجزا میں دوسری اشیا کی آمیزش پائی گئی۔

بی پی او ایم کے مطابق ان میں سے ایک کمپنی کی دوا میں استعمال کیے جانے والا مرکب پروپیلین گلیکول تھائی لینڈ کی ڈو کیمیکل کا تیار کردہ تھا۔

ڈو کیمیکل تھائی لینڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بی پی او ایم نے جن سپلائرز کا ذکر کیا ہے ان میں سے کوئی بھی ان کا صارف نہیں ہے اور یہ کہ اس کی تیار کردہ مصنوعات میں ایتھیلین گلیکول یا ڈائی ایتھلین گلیکول شامل نہیں ہے۔

اس کا مزید کہنا تھا کہ اس نے تجزیاتی ڈیٹا بی پی او ایم کو بھیج دیا ہے۔

بی پی او ایم نے کہا ہے کہ یہ جاننے کے لیے ان دو ادویہ ساز کمپنیوں کے تقسیم کاروں کے معاملات کو بھی پر کھا جائے گا کہ آیا انہوں نے دوسری ادویہ ساز کمپنیوں کو بھی تو مال سپلائی نہیں کیا۔

رواں برس کے آغاز میں ایک اور ملک گیمبیا میں اس سے ملتے جلتے واقعات منظر عام پر آئے تھے۔

گیمبیا میں بھارت کی ایک ادویہ ساز کمپنی ’میدن‘ کی تیار کردہ دوا کے استعمال سے لگ بھگ 70 بچے ہلاک ہوئے تھے۔

انڈونیشیا عالمی ادارہٴ صحت کی مشاورت کے ساتھ بچوں میں گردوں کی شدید خرابی کے واقعات کی تحقیقات کر رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG