انڈونیشیا میں استغاثہ نے جمعے کے روز اُن قدامت پسند عالم دین کو موت کی سزا دیےجانے کی التجا کی ہے جن پر قید کے دوران متعدد حملوں کی سازش کرنے کا الزام ہے۔
امان عبدالرحمٰن، جن کا تعلق داعش سے منسلک ’جماع الشوارع دولہ‘ (جے اے ڈی) سے بتایا جاتا ہے، کے خلاف ’’دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور/یا دوسروں کو متحرک کرنے کی حرکات میں ملوث ہونے۔۔۔عوام میں دہشت گردی کی فضا پیدا کرنے‘‘ کا الزام ہے۔
جکارتہ میں وکیل استغاثہ، انیتا دیویانی نے پانچ رکنی ججوں کے پینل کو بتایا کہ عبدالرحمٰن کی منصوبہ سازی کی وجہ سے متعدد افراد ہلاک جب کہ دیگر زخمی ہوئے؛ اور انڈونیشیا کے انسداد دہشت گردی کے قوانین کی رو سے مدعا علیہ کو قصور وار ٹھہرائے جانے پر موت کی سزا ہو سکتی ہے۔
پولیس اور سرکاری وکلا نے عبدالرحمٰن کو مبینہ سازش میں ملوث بتایا ہے، جس میں ملزم نے پیرس کی طرح کا حملہ کرنے کا منصوبہ رچایا تھا، جس میں غیر ملکیوں پر حملہ کیا جانا تھا؛ اور جنوری 2016ء میں اندرونِ جکارتہ خودکش حملے کیے گئے جن میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے، جن میں چار حملہ آور بھی شامل تھے۔
اُنھوں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ گذشتہ سال ہونے والے خودکش حملے کی پشت پناہی عبدالرحمٰن کر رہے تھے، جس میں جکارتہ کے بس اسٹینڈ پر حملے میں تین پولیس اہلکار ہلاک ہوئے؛ بورنیو کے جزیرے میں سمارندہ کے مقام پر ایک گرجا گھر پر بم دھماکہ اور تھمرین کمبونگ ملایا میں بم حملہ کیا گیا۔
عبدالرحمٰن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مدعا علیہ کو حملوں سے منسلک کرنے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
مقدمے کی آئندہ سماعت 25 مئی کو ہوگی، جس میں ملزم اور اُن کے وکیل پیش ہوں گے۔ عدالت کی جانب سے مقرر کردہ وکیل، استغاثہ کے الزامات کا جواب دیں گے۔
عبدالرحمٰن انڈونیشیا میں داعش کے شدت پسندوں کے روح رواں بتائے جاتے ہیں، جو مسلمانوں کا دنیا میں سب سے بڑا ملک ہے۔ اُنھوں نے وکیل قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ’’میں خود ہی اپنا دفاع کروں گا‘‘۔
سنہ 2004میں اُنھیں قید کی سزا ہوئی تھی، جب مغربی جاوا میں ایک گھر میں بم دھماکہ ہوا؛ اور سنہ 2011 میں ایک بار پھر صوبہٴ آچے کے پہاڑی علاقے میں ایک جہادی تربیتی کیمپ قائم کرنے میں مدد دینے کا الزام تھا۔