رسائی کے لنکس

عازمین حج بھی مہنگائی اور معاشی بحران کی لپیٹ میں؟


سعودی عرب میں حج اجتماع
سعودی عرب میں حج اجتماع

ویب ڈیسک۔سعودی عرب ہر سال دنیا بھر سے آنے والے مسلمانوں کے لئے حج کا اہتما م کرتا ہے ۔ کووڈ کی وبا کے باعث دو سال تک زائرین کو اپنے اس فریضے سے محروم رہنا پڑا ۔ تاہم گزشتہ سال محدود تعداد میں لوگوں نے حج کی ادائیگی کی اور اب تین سال بعد بیس لاکھ افراد فریضہ حج ادا کر سکیں گے ۔ لیکن حاجیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے اسلام کے اس بنیادی رکن کی ادائیگی کرنا مشکل ہو گیا ہے جس کی ایک بڑی وجہ عالمی سطح پر افراط زر اور معاشی بحران ہے۔

ہر صاحب حیثیت مسلمان کے لئے زندگی میں ایک بار حج کی ادائیگی کی ہدایت ہے۔ تاہم موجودہ حالات نے اسلام کے اس روحانی سفر کو مشکل بنا دیا ہے ۔ عالمی سطح پر افراط زر نے حج کے اخراجات میں ڈرامائی طور پر اضافہ کر دیا ہے کیونکہ مکہ اور اس کے ارد گرد نقل و حمل، خوراک اور رہائش کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ متعدد ممالک معاشی بحران کا شکار ہیں اور قومی کرنسیوں کی قدروں میں گراوٹ کی وجہ سے مہنگائی کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے ۔ پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جو مہنگائی اور روپے کی قیمت میں کمی کے باعث اس سال اپنے حج کوٹے کو بھی مکمل نہیں کر سکا حالانکہ پاکستانی حجاج کی تعداد ہمیشہ ہی زیادہ رہی ہے ۔ یہ تعداد بعض اوقات مقررہ کوٹے سے بھی تجاوز کر جاتی تھی کیونکہ لوگ اپنی عمر بھر کی جمع پونجی سے اس فریضے کی ادائیگی کو ترجیح دیتے ہیں ۔

اس طرح چنداور ممالک کو بھی اس سال اپنے زائرین کے کوٹے کو مکمل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی جو ایک چونکا دینے والی علامت ہے کیونکہ عام طور پر مانگ کوٹے کی فراہمی سے کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔سعودی عرب ہر ملک سے آنے والے حاجیوں کیلئے کوٹا مقرر کرتا ہے تاکہ تعداد کو کنٹرول کرنے اور ہر ایک کے لیے منصفانہ موقع کو یقینی بنایا جائے ۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسی طرح مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں یونیورسٹی کےایک پروفیسر محمد نے کہا کہ حج پر جانے کے لیے درخواست دینا ان کی سالانہ روایت رہی ہے۔ لیکن اس بار وہ حج کے اخراجات اٹھانے کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔محمد نے مصر کی معاشی صورتحال کے بارے میں بات کرنے اور اس موضوع سے جڑی حساسیت کے پیش نظر انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا پورا نام استعمال نہ کرنے کو کہا ۔

مصری حکام نے اس سال مصری زائرین کی کل تعداد کا اعلان نہیں کیا ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ 2019 اور پچھلے برسوں کے مقابلے میں تقریباً اسی ہزار کم ہے ۔ مقامی میڈیا میں حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مصری ایئر لائینز کے مطابق پینتیس سے پینتالیس ہزار مصری عازمین کو حج کیلئے لے جایا جا رہا ہے۔ سرکاری میڈیا رپورٹس کے مطابق مزید چار ہزار افراد زمینی راستے سے گئے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے حاجیوں کی تعداد کے اعداد و شمار کے بارے میں عہدیداروں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

مصر کو بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کا سامنا ہے اور ملک میں افراط زر کی شرح چالیس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت نے بار بار کرنسی کی قدر میں کمی کی ہے اور گزشتہ حج کے بعد مصری پاؤنڈ کی قدر سعودی ریال کے مقابلے میں چالیس فیصد کم ہوئی ہے۔

مصر ،پاکستان اور دیگر ممالک کی طرح اپنے لیے مختص حج کوٹے کا ایک حصہ نجی کمپنیوں کے ذریعے تقسیم کرتا ہےاور کم لاگت پر حکومت درخواست دہندگان کا لاٹری کے ذریعے سفر کا اہتمام کرتی ہے ۔ مصر کے سرکاری میڈیا کے مطابق اس مرتبہ وزارت داخلہ کے زیر اہتمام حج کا ارادہ رکھنے والوں کے لئے سستے ترین حج پیکج کی قیمت ایک لاکھ پچھتر ہزار مصری پاؤنڈز تھی جو تقریباً پانچ ہزار چھ سو تریسٹھ ڈالر ہے۔ گزشتہ برس اسی پیکیج کی قیمت نوے ہزار پاؤنڈ تھی جواب دوگنی ہو گئی ہے۔

قاہرہ میں قائم ایک ٹریول ایجنسی کے منیجر نے بتایا کہ گزشتہ سال انہوں نے حج کے لئے 100 ٹرپس کا بندوبست کیا تھا جبکہ اس سال صرف40 انکوائریاں کی گئی ہیں۔ اس ٹریول ایجنٹ نے بھی معاملے کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔پھر منتظمین اور زائرین کو مصری بینکوں کی جانب سےغیر ملکی نقد رقم نکالنے پر عائد پابندیوں کا بھی سامنا ہے ۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک صحافی اس وقت مکہ میں ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ بینکنگ پابندیوں کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہفتے بھر کے قیام کے لیے صرف ایک ہزار سعودی ریال یعنی تقریباً دو سو چھیاسٹھ ڈالر تک کی رقم لے سکتے ہیں۔

ایک مصری خاتون نادیہ عواد نے کہا کہ وہ حج کی ادائیگی کے لئے ہوائی جہاز سے جانے کی استطاعت نہیں رکھتیں اس لیے وہ مکہ جانے کے لیے زیادہ لمبا لیکن کم اخراجات والا زمینی راستہ اختیار کر رہی ہیں۔ انہوں نے قاہرہ سے بس میں سوار ہونے سے پہلے کہا کہ ’’ اگرچہ اس سفر میں زیادہ کوشش شامل ہے لیکن یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘

اس خبر کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG