رسائی کے لنکس

مہنگائی کم ہو پائے گی؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور و محصولات حماد اظہر نے کہا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں سے ملک میں اقتصادی بہتری کے اشاریے سامنے آ رہے ہیں اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کی معیشت کے بارے میں مثبت رپورٹیں دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 14 فیصد کے قریب مہنگائی میں اضافے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں ادائیگیوں میں عدم توازن، روپے کی قدر کا گرنا اور مخصوص زرعی اجناس کی پیداوار میں کمی ہے۔ تاہم انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ضروری اشیائے خورانی کی قیمتوں میں جلد کمی ہو گی جیسا کہ وزیراعظم عمران خان نے قوم کو یقین دلایا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اتوار کے روز سوشل میڈیا پر جاری ایک پیغام میں کہا کہ آئندہ ہفتے ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں بنیادی غذائی اجناس کی قیمتوں میں کمی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے متعلق تحقیقات کا اعلان کر دیا گیا ہے اور اس ضمن میں ذمہ داروں کو سزائیں دی جائیں گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے سمیت عوام کو مشکلات کا سامنا ہے اس کا بخوبی ادراک ہے۔ عوام اطمینان رکھیں آٹا، چینی مہنگا کرنے والوں کا بھرپور محاسبہ کیا جائے گا، تحقیقات کا آغاز کیا جا چکا۔

ادھر پلاننگ کمشن کے سربراہ اور سابق وزیرخزانہ اسد عمر نے ایک تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ آٹے اور چینی کے مصنوعی بحران سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف کارروائی جلد، اسی فروری کے مہینے میں ہو گی۔

عمران خان اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ ملک میں مختلف مافیاز کام کر رہے ہیں جو حکومت کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔

کیا وزیراعظم کی طرف سے اس اعلان کے بعد توقع رکھی جا سکتی ہے کہ مہنگائی کم ہو سکے گی، بالخصوص اشیائے خورانی کی قیمتیں گریں گی؟ اس بارے میں وفاقی وزیرحماد اظہر نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ بالکل ایسا ممکن ہے۔

’’ ہم ابتدائی طور پر صوبوں کے ساتھ مل کر ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کو زیادہ وسائل فراہم کریں گے تاکہ وہ موثر انداز میں شہریوں کو بنیادی ضرورت کی اشیائے سستے داموں فراہم کر سکے۔‘‘

کیا حکومت ملازم طبقے کی قوت خرید بہتر کرنے کے لیے ان کی تنخواہوں میں اضافے کا ارادہ رکھتی ہے؟ اس بارے میں وفاقی وزیر حماد اظہر نے کہا کہ اس بارے میں حتمی فیصلہ بجٹ میں کریں گے

’’ بجٹ بن رہا ہے۔ تنخواہوں میں اضافے کے بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن حکومت کی اولین ترجیح ہے کہ ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے حکومت کے جاری پروگراموں کے لیے فنڈز بڑھا دیں۔‘‘

ادھر حزب اختلاف مسلم لیگ نواز کی راہنما سابق وزیرمملکت سائرہ افضل تارڑ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ عمراں خان حکومت سے کسی بہتری کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔

’’ ہر طرف بدنظمی ہے۔ یہ حکومت عوام کے مسائل نہیں حل کر سکتی۔ ایک طرف وزیراعظم مہنگائی ختم کرنے کی بات کرتے ہیں، دوسری طرف ہر چیز کی قیمتوں میں اضافے کی سمریاں منظور کرتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو، ان کے بقول، بیوروکریسی نے رپورٹ دے دی ہے کہ کون لوگ مہنگائی کے ذمہ دار ہیں۔ وزیراعظم زبانی کلامی باتیں کرنے کی بجائے ان لوگوں پر ہاتھ ڈالیں جو ان کے اپنے حلقے کا حصہ ہیں۔

سائرہ افضل تارڑ کا کہنا تھا کہ مہنگائی ایک بار بڑھ جائے تو تاریخ گواہ ہے، قیمتیں واپس نہیں آتی ہیں۔

ضروری غذائی اجناس کی قیمتوں میں فوری کمی کے حکومتی ارادے پر اپنے ردعمل میں پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے صدر زبیر موتی والا نے کہا کہ مہنگائی میں فوری کمی کا امکان نہیں ہے۔ کم از کم ایک سال بعد قیمتوں میں استحکام آ سکتا ہے بشرطیکہ حکومتی پالیسیوں میں استحکام ہو۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیرحماد اظہر باتیں اچھی کرتے ہیں لیکن ان باتوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کا ذمہ دار بزنس کمیونٹی کو قرار دینا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ چند لوگوں نے ذخیرہ اندوزی کی ہے جو کہ نہیں کرنی چاہیے، بالخصوص کھانے پینے کی اشیاء کی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ کاروبار نفع کے لیے ہی کیا جاتا ہے، نقصان کے لیے نہیں اور ہر کاروباری شخص اپنے نفع کا ضرور سوچتا ہے۔

وفاقی وزیرحماد اظہر نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں مزید کہا کہ حکومت کی معاشی پالیسوں سے اقتصادی اشاریے بہتر ہو رہے ہیں۔ ادائیگیوں میں توازن آ رہا ہے۔ مالی خسارے میں کمی آ رہی ہے اور کوشش کر رہے ہیں کہ ٹیکس ریونیو کو بہتر بنایا جائے۔ اس سلسلے میں بزنس کمیونٹی کے ساتھ مسلسل رابطے بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عالمی ادارے بھی پاکستان کی معیشت کو سمت کو درست قرار دے رہے ہیں اور جلد ملک معاشی طور پر مستحکم ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت انفراسٹرکچر کے لیے بجٹ میں اضافہ کر رہی ہے تاکہ تعمیرات کی صنعت اور اس سے جڑی انڈسٹری مضبوط ہو۔ انہوں نے کہا حکومت احساس پروگرام جیسے پراجیکٹس سے نادار طبقے کا بوجھ کر کم رہی ہے۔

  • 16x9 Image

    اسد حسن

    اسد حسن دو دہائیوں سے ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور صحافتی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ وی او اے اردو کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں ڈیجیٹل کانٹینٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG