تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہ اجلاس میں افغانستان اور دہشت گردی کا مسئلہ چھایا رہا۔
اجلاس کے مقررین نے دہشت گردی کو افغانستان کی موجودہ صورتِ حال سے مربوط کر کے دیکھنے کی کوشش کی اور اس بات پر زور دیا کہ عالمی برادری کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے اس امید کا اظہار کیا کہ عالمی برادری اس سلسلے میں سنجیدہ کوشش کرے گی اور دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں دوبارہ منظم ہونے کا موقع نہیں دے گی۔
انھوں نے افغانستان میں استحکام پر زور دیا اور طالبان سے کہا کہ وہ حسب وعدہ ایک جامع اور نمائندہ حکومت کے قیام کو یقینی بنائیں جس میں تمام نسلی گروہوں کو نمائندگی حاصل ہو۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے افغانستان میں ایک جامع سیاسی نظام اور تمام نسلی گروپوں پر مشتمل نمائندہ حکومت کے قیام کا جو وعدہ کیا تھا وہ انھیں پورا کرنا چاہیے۔ یہ افغانستان کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے ساتھ کہ افغانستان پھر کبھی بھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے، اس کی بھی اہمیت ہے کہ تمام افغان شہریوں کے حقوق کا احترام کیا جائے۔
ان کے مطابق پاکستان کا مفاد، جو کہ ہمسایہ ملک میں جنگ اور عدم استحکام کی وجہ سے متاثر ہوا ہے، پرامن اور مستحکم افغانستان میں ہے۔ ہم ایک مستحکم، خود مختار اور خوش حال افغانستان کی حمایت جاری رکھیں گے۔
عمران خان نے افغانستان کی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی افواج کے انخلا اور طالبان کے قبضے کے بعد ایک نئی حقیقت سامنے آئی ہے اور یہ سب کچھ خون خرابہ، خانہ جنگی اور پناہ گزینوں کے بڑے پیمانے پر ترک سکونت کے بغیر ہوا ہے جو کہ اطمینان کا باعث ہے۔
ان کے بقول اب اس بات کو یقینی بنانے میں عالمی برادری کی دلچسپی ہونی چاہیے کہ افغانستان میں دوبارہ لڑائی نہ ہو اور سیکیورٹی کی صورت حال مستحکم ہو۔
انھوں نے کہا کہ انسانی بحران اور اقتصادی کساد بازاری کو روکنا بھی فوری ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کی بیسویں برسی نے ہمیں یہ یاد دلایا کہ عالمی برادری کی بہترین کوششوں کے باوجود دہشت گردی کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔
ان کے مطابق ایک مذہب کو دہشت گردی سے جوڑنے کے عمل نے دائیں بازو اور بالادستی حاصل کرنے والے گروہوں کو اپنے نظریات کی تبلیغ، توسیع اور اثر کو بڑھانے کا اہل بنا دیا۔ بعض معاملات میں ایسے انتہا پسندوں نے نام نہاد جمہوریتوں میں اقتدار پر قبضہ کے لیے پیش قدمی کی۔
ان کے خیال میں اگر ان خطروں اور چیلنجز کو نظر انداز کر دیا گیا جن میں سب سے بڑا خطرہ متنازع علاقوں میں غیر ملکی قبضوں کے تحت زندگی گزارنے والوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی ہے، تو پھر دہشت گردی کے خلاف لڑائی جیتی نہیں جا سکے گی۔
وزیرِ اعظم نے اس پر روشنی ڈالی کہ کس طرح پاکستان اس دہشت گردی سے، جو دہائیوں سے سرحد پار سے منصوبہ بندی کے تحت ہو رہی ہے اور جسے مالی تعاون حاصل ہے، متاثر ہوا ہے۔
ان کے بقول غیر جنگ زدہ ملکوں میں پاکستان سے زیادہ کوئی بھی اس دہشت گردی سے متاثر نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے 80 ہزار پاکستانی ہلاک ہوئے اور 150 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ایشیائی ملکوں کو سب سے بڑا چیلنج انتہا پسندی سے ہے اور افغانستان کی صورتِ حال نے اسے اور واضح کیا ہے۔
انھوں نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایس سی او کی بیسویں سالگرہ اس کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کا صحیح وقت ہے۔
انھوں نے کہا کہ خطے میں سب سے بڑا چیلنج امن و سلامتی کا قیام اور عدم اعتماد کا خاتمہ ہے۔ انتہاپسندی میں اضافہ ان مسائل کی جڑ ہے۔ افغانستان کے حالیہ واقعات نے انتہا پسندی کے خطرے کو مزید واضح کر دیا ہے۔
ان کے خیال میں انتہاپسندی اور دہشت گردی سے لڑنے کے لیے ایس سی او کو ایک مشترکہ خاکہ مرتب کرنا چاہیے۔
نریندر مودی نے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ اس گروپ میں نئے دوست بھی شامل ہو رہے ہیں۔ انھوں نے ایس سی او میں ایران کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ تینوں ڈائیلاگ پارٹنرز سعودی عرب، مصر اور قطر کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو وسطی ایشیا رواداری اور ترقی پسند تہذیبوں اور قدروں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں سے صوفی ازم کی روایت پھیلی اور پورے خطے میں اس کی ترویج ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بھارت اور ایس سی او کے تقریباً تمام ملکوں میں اسلام سے متعلق روادار، تحمل پسند اور بقائے باہم کے ادارے اور روایتیں ہیں۔ ایس سی او کو ان کے درمیان ایک مضبوط نیٹ ورک تیار کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
نریندر مودی نے کہا کہ بھارت وسطی ایشیا کے تمام ملکوں کے ساتھ رابطہ کاری بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔
اس اجلاس کے حوالے سے سینئر تجزیہ کار شاہد صدیقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت افغانستان کی صورتِ حال بہت نازک ہے۔ ایسے میں عالمی برادری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اور صحیح سمت میں قدم اٹھائے۔ کیوں کہ اگر کوئی غلط قدم اٹھ گیا تو اس کے نتائج پورے خطے کے لیے سنگین ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ عراق اور شام میں داعش کے کمزور پڑنے اور القاعدہ کے تقریباً بکھر جانے کے بعد نام نہاد اسلامی دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ اب جب کہ طالبان افغانستان میں برسراقتدار آگئے ہیں تو ان پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سمجھ داری سے کام لیں۔
ان کے خیال میں اگر طالبان مثبت راستہ اپناتے ہیں اور دہشت گردی سے دور رہ کر اقدامات کرتے ہیں تو اس کے نتائج پوری دنیا پر مرتب ہوں گے اور خاص طور پر خطے اور اسلامی دنیا پر اس کے اثرات پڑیں گے۔
ان کے مطابق اگر طالبان نے دوبارہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کا راستہ اختیار کیا تو دوسرے دہشت گرد گروہوں اور عناصر کو اس سے حوصلہ ملے گا اور انھیں منظم ہونے کا موقع ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھارت، پاکستان، افغانستان اور پوری دنیا کے امن و امان کے لیے ضروری ہے کہ طالبان دہشت گردی سے دور رہ کر افغانستان کی تعمیر نو پر توجہ دیں۔
شاہد صدیقی نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ القاعدہ دوبارہ پہلے کی مانند افغانستان میں منظم ہو سکے گی۔ البتہ انتہا پسندی کی جو سوچ اور ذہنیت ہے اسے تقویت حاصل ہو سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ذہنیت کو کچلا جائے۔ ورنہ القاعدہ کے بجائے کسی اور نام سے انتہاپسند عناصر سرگرم ہو جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ بھارت کی یہ تشویش کہ افغانستان کی سر زمین اس کے خلاف استعمال نہ ہو جائے اور پاکستان کی تشویش بھی بجا ہے کہ وہاں دوبارہ دہشت گردی پیدا نہ ہو۔
ان کے مطابق پاکستان کو دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیوں سے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ اس کے استحکام اور معیشت کو زبردست ٹھیس لگی ہے اور ان کے خیال میں پاکستان دو دہائی پیچھے چلا گیا ہے۔