رسائی کے لنکس

نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل دوبارہ فعال، پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے کتنا سود مند؟


ماضی میں پاکستان میں این سی ایم سی اور نیکٹا کے نام سے بھی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ فائل فوٹو
ماضی میں پاکستان میں این سی ایم سی اور نیکٹا کے نام سے بھی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ فائل فوٹو

پاکستان میں دہشت گردی اور دیگر خطرات سے نمٹنے کے لیے ماضی میں قائم ہونے والے نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کو دوبارہ فعال کر دیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ میں حالیہ دنوں میں قائم ہونے والے نیشنل کرائسز مینجمنٹ انفارمیشن سیل کے بارے میں وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ اس میں تمام اداروں کو ایک چھت تلے لایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ادارے کا سیکرٹریٹ قائم کردیا گیا ہے اور آئندہ چند دن میں وزیراعظم عمران خان اس کا افتتاح کر دیں گے۔

ماضی میں یہ ادارہ نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کے نام سے قائم ہوا تھا۔ یہ سیل بنانے والے بریگیڈئیر ریٹائرڈ جاوید اقبال چیمہ کہتے ہیں کہ 'این سی ایم سی' ملک کی داخلی سیکیورٹی کے حوالے سے واحد ادارہ تھا جس میں تمام ادارے مل کر ملکی سیکیورٹی کے اقدامات کرتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کی جگہ اگرچہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی ’نیکٹا‘ قائم کی گئی لیکن یہ ادارہ بیورو کریسی کے سرخ فیتے کی نذر ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کو دوبارہ بحال کیا جا رہا ہے۔

وزارتِ داخلہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ ادارہ ماضی کے این سی ایم سی کی طرح ہی کام کرے گا۔ اس ادارے کے تحت تمام انٹیلی جینس ادارے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی رپورٹس جمع کرائیں گے۔

افغان جنگ کے سبب وادیٔ سوات میں خواتین کی تعلیم پر کیا اثر پڑا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:27 0:00

انہوں نے بتایا کہ ان رپورٹس پر متعلقہ اداروں کو آگاہ کرکے کسی بھی امن مخالف کارروائی کو روکنے کی کوشش کریں گے۔

این سی ایم سی تھا کیا؟

نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کیا تھا اور کیسے کام کرتا تھا اس بارے میں سیل کے پہلے سربراہ بریگیڈئیر ریٹائرڈ جاوید اقبال چیمہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل سن 2000 میں بنایا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ وفاق کی سطح پر ایک ’نرو سینٹر‘ تھا جو تمام قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس اداروں سے منسلک تھا۔ وزارت داخلہ کا یہ بہت مفید ادارہ تھا جسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا تھا۔

جاوید اقبال چیمہ کے مطابق این سی ایم سی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ براہ راست منسلک تھا۔ یہاں روزانہ کی بنیاد پر تمام ادارے رپورٹس بھجواتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس ایک انفارمیشن برانچ اور ایک اینالسز ونگ تھا۔ جہاں آنے والی معلومات کو چیک کرنے کے بعد آپریشن برانچ کو معلومات بھجوائی جاتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جو رپورٹس ہم بھجواتے تھے وہ تمام آئی جیز، دفاعی اور دیگر اداروں کو بھجوائی جاتی تھیں ان کی مدد سے ہم دہشت گردی اور دیگر مجرمانہ کارروائیوں کو روکتے تھے۔

نیکٹا نے کیا کیا؟

اس سوال پر کہ نیکٹا کا قیام بھی اسی مقصد کے لیے کیا گیا تھا لیکن کیا نیکٹا اس کام میں ناکام رہا؟ بریگیڈئیر ریٹائرڈ جاوید اقبال چیمہ نے کہا کہ نیکٹا جب قائم کیا گیا تو اس کا مقصد تھا کہ وہ ریسرچ کریں اورحکومت کو ’اِن پٹ‘ دیں لیکن اپنے قیام کے پہلے دن سے اس نے اپنا کام نہیں کیا۔

جاوید اقبال چیمہ کا کہنا تھا کہ نیکٹا کے قیام کے وقت کہا تھا کہ وہاں ڈپٹی ڈائریکٹر، ڈائریکٹر، جوائنٹ سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹریز کی ضرورت نہیں بلکہ نوجوان ٹیلنٹ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تجویز تھی کہ نیکٹا کے لیے یونیورسٹیز سے فارغ ہونے والے نوجوان بچوں کو رکھا جائے جو ملک کی داخلی سیکیورٹی پر آنے والے انٹیلی جنس معلومات پر اپنا تجزیہ دیں اور اس کےذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بروقت معلومات اور حکومت کو مشاورت فراہم کی جاسکے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معذور ہونے والے پاکستانی فوجیوں کی کہانی
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:39 0:00

ان کا کہنا ہے کہ لیکن نیکٹا میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور وہی روایتی بیورو کریسی کے انداز میں کام کرنے کی وجہ سے نیکٹا ایک پوسٹ آفس بن کررہ گیا۔ جہاں آنے والی معلومات آگے بڑھا دی جاتی ہے اور حکومت کو اس نیکٹا کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

جاوید اقبال چیمہ کہتے ہیں کہ مجھے خوشی ہے کہ حکومت کو احساس ہوا کہ وہ ایسا ادارہ بنائیں جو ان کی آنکھیں اور کان ثابت ہوں۔ لیکن اگر اسے بھی بیوروکریٹک انداز میں چلایا گیا تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں این سی ایم سی نے فاٹا اور بلوچستان میں بہت اہم کردار ادا کیا اور ہم پالیسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے جو معلومات ہمیں حاصل ہوتی تھیں۔ ان معلومات کو متعلقہ اداروں تک پہنچاتے تھے اور مل کر کام کرتے تھے۔

ان کے مطابق اب بھی یہ ادارہ اگر اسی انداز میں کام کرے تو ملک کی داخلی سیکیورٹی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں ملک کی داخلی سیکیورٹی کے لیے اس وقت نیکٹا کام کررہا ہے جس میں مختلف اداروں کے افسران کام کررہے ہیں۔ لیکن داخلی سیکیورٹی کے حوالے سے کئی ڈائریکٹرز جنرل بدلنے کے باوجود اب تک اس ادارے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔

XS
SM
MD
LG