امریکہ کے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شریک رپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر کہ امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ بند کیا جائے عالمی ردعمل میں اضافہ ہوا ہے۔ بدھ کو لگ بھگ ڈھائی لاکھ برطانوی شہریوں نے ایک آن لائن درخواست پر دستخط کیے جس میں ٹرمپ کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔
پیر کو ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر ’’مکمل پابندی‘‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پابندی اس وقت تک برقرار رہنی چاہیئے جب تک حکومت کیلیفورنیا فائرنگ کے واقعے کے بعد مسلمانوں کے امریکہ کے بارے میں رویوں کو نہیں ’’سمجھ لیتی‘‘۔
کچھ برطانوی شہریوں کا کہنا ہے کہ جو کچھ ٹرمپ نے کہا وہ ’’نفرت انگیز بیان‘‘ کے مترادف ہے۔
سکاٹش نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی تسمینہ احمد شیخ نے کہا کہ ٹرمپ پر بھی وہی قوانین لاگو ہونے چاہیئں جو انتہا پسند مسلمان مبلغوں پر کیے جاتے ہیں۔
’’ہم نے اس ملک میں نفرت کی تبلیغ کرنے والے 84 مبلغوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ میرا مؤقف ہے کہ جو کچھ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا وہ نفرت انگیزی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس حکومت سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ انہیں 85 واں شخص بنانے پر غور کریں (جس پر پابندی عائد کی گئی ہے)۔‘‘
جن آن لائن درخواستوں پر ایک لاکھ سے زائد دستخط ہو جائیں ان پر پارلیمان میں بحث کے لیے غور کیا جاتا ہے مگر برطانیہ کے وزیر خزانہ جارج آسبورن نے بدھ کو قانون سازوں سے کہا کہ ’’صدارتی امیدواروں پر پابندی عائد کرنا‘‘ غلط ہو گا۔
آسبورن نے برطانوی پارلیمان کے دارالعوام میں کہا کہ ’’ڈونلڈ ٹرمپ جیسے کسی شخص کا مقابلہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہو گا کہ ان سے اس بات پر ایک جمہوری مکالمہ کیا جائے کہ ان کا مؤقف کیوں اتنا غلط ہے۔‘‘
اس سے قبل برطانیہ کئی متنازع شخصیات کا ملک میں داخلہ بند کر چکا ہے جن میں امریکی باکسر مائک ٹائسن، گلوکار ٹائلر دی کریئٹر، انتہا پسند مسلم مبلغ اور مسیحی بنیاد پرست فریڈ فیلپس سینیئر شامل ہیں۔
ادھر اسرائیل میں دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے متعدد سیاستدانوں نے ٹرمپ کے بیان کی مذمت کی اور کہا کہ ان کی ملک میں آمد پر پابندی عائد کر دینی چاہیئے۔
تاہم ایک حکومتی عہدیدار نے خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو 28 دسمبر کو ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ یہ ملاقات دو ہفتے قبل طے ہوئی تھی۔
اسرائیلی پارلیمان کے کم از کم 37 قانون سازوں نے نیتن یاہو کے لیے ایک مراسلے پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اگر ٹرمپ اپنا بیان واپس نہیں لیتے تو وہ ان سے ملاقات منسوخ کر دیں۔ ان قانون سازوں کی اکثریت کا تعلق حزب اختلاف سے ہے اور یہ 120 رکنی اسرائیلی پارلیمان کے لگ بھگ ایک تہائی پر مشتمل ہیں۔
فرانس اور برطانیہ کے وزرائے اعظم، کینیڈا کے وزیر خارجہ، اقوام متحدہ اور ایشیا کے مسلمان بھی ٹرمپ کے بیان کی مذمت کر چکے ہیں۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے ٹرمپ کے بیان کو ’’بہت ہی عجیب‘‘ کہا۔
بدھ کو کابینہ کے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ ’’اسلام اچھائی اور امن کا مذہب ہے ۔۔۔ بدقسمتی سے دنیا بھر سے کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں کا داخلہ بند کرنا چاہیئے۔‘‘
ادھر سکاٹ لینڈ کے شہر ایبرڈین کی رابرٹ گورڈن یونیورسٹی نے ٹرمپ کو 2010 میں دی گئی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری منسوخ کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’حالیہ امریکی صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ نے کئی ایسی باتیں کہی ہیں جو یونیورسٹی کی روح اور اقدار سے قطعی مطابقت نہیں رکھتیں۔‘‘
ٹرمپ کو اس بیان کے مالیاتی نتائج بھی بھگتنا پڑے ہیں۔ مشرق وسطیٰ، افریقہ اور پاکستان میں 190 سٹور رکھنے والی لینڈمارک کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے سٹورز میں ’ٹرمپ ہوم‘ کمپنی کا فرنیچر فروخت نہیں کرے گی۔
نومبر میں پیرس میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے باوجود پیرس کے بہت سے رہائشیوں نے بھی ٹرمپ کے بیان کی مذمت کی ہے۔
ادھر امریکہ کے شہر نیو یارک میں 100 کے لگ بھگ مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے بدھ کو سٹی ہال میں جمع ہو کر ٹرمپ کی تجویز کی مذمت کی۔
سابق باکسنگ چیمپیئن محمد علی نے ٹرمپ کا نام لیے بغیر ایک بیان میں امریکی سیاستدانوں سے کہا ہے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ’’اسلام کے بارے میں سمجھ بوجھ پیدا کریں اور واضح کریں کہ ان گمراہ قاتلوں نے لوگوں کا اسلام کے متعلق تاثر خراب کیا ہے۔‘‘