افغانستان کی قومی مصالحت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پاکستان کے تین روزہ دورے پر پیر کو پاکستان پہنچ گئے ہیں۔
وزیرِ اعظم کے مشیر برائے تجارت عبد الرزاق داؤد اور افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندۂ خصوصی محمد صادق سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور ان کے وفد کا استقبال کیا۔
عبداللہ عبداللہ کے دورۂ پاکستان کے دوران صدر ڈاکٹر عارف علوی، وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت دیگر اعلیٰ شخصیات سے ملاقاتیں طے ہیں۔
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا افغان قومی مصالحت کے سربراہ کے طور پر پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے۔
پاکستان آمد سے قبل ایک ٹوئٹ میں عبداللہ عبداللہ نے کہا تھا کہ اس دورے میں دونوں ممالک کی قیادت دوحہ میں جاری افغان امن مذاکرات اور دو طرفہ تعلقات کے بارے میں تبادلۂ خیال کرے گی۔
انہوں نے توقع ظاہر کی تھی کہ اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان ہر سطح پر باہمی تعاون خاص طور پر افغانستان میں پائیدار امن کے لیے مذاکرات کے نئے باب کا آغاز ہو گا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق عبداللہ عبداللہ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد میں ہونے والی ایک تقریب سے بھی خطاب کریں گے۔
افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ماضی میں عبداللہ عبداللہ افغانستان میں پاکستان کے مبینہ کردار کے بارے میں مثبت رائے نہیں رکھتے تھے۔ لیکن حالیہ برسوں میں ان کے خیالات میں تبدیلی آئی ہے۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول عبداللہ عبداللہ یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ اس لیے پاکستان سے رابطے اور افغان امن عمل سے متعلق مشورہ ضروری ہے۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول اسلام آباد کے دورے میں افغان امن عمل کے تمام پہلوؤں کے بارے میں تبادلہ ہو گا۔
ان کے بقول اگرچہ دوحہ مذاکرات میں فی الحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ لیکن افغانستان میں پائیدار امن کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی کوششیں جاری ہیں۔
رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ افغان اعلیٰ قیادت اور امریکی حکام طالبان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ جنگ بندی کریں تاکہ مذاکرات کے لیے ساز گار ماحول بن سکے۔
ادھر پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے جلد انخلا سے گریز پر زوردیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک غیر دانش مندانہ اقدام ہوگا۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے یہ بات امریکہ کے ایک مؤقر روز نامے 'واشنگٹن پوسٹ' میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہی ہے۔
یہ مضمون ایک ایسے وقت میں شائع ہوا ہے۔ جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں ابتدائی بات چیت جاری ہے۔
افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ عمران خان اس بات کے خواہاں ہیں کہ افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا سے پہلے تمام افغان فریقین کے درمیان امن معاہدہ ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا سے پہلے افغان حکومت، طالبان اور دیگر افغان دھڑوں کے درمیان سیاسی مستقبل کے بارے میں ایک معاہدہ طے پائے جائے۔
ان کے بقول وزیرِ اعظم شاید یہ خیال کرتے ہیں کہ امن معاہدہ طے کیے بغیر افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا سے حالات بگڑ سکتے ہیں اور اس کا پاکستان پر منفی اثر پڑے گا۔
'واشنگٹن پوسٹ' میں مضمون میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بات چیت کے دوران پیش رفت سست اور مشکل ہو گی۔ جب افغان اپنے مستقبل کا تعین کر رہے ہوں گے اس دوران تعطل کے موقع بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
عمران خان نے ایک بار پھر اپنے مؤقف کا اعادہ کیا کہ ہم یہ جان چکے ہیں کہ طاقت کے استعمال سے افغانستان میں امن اور سیاسی استحکام مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ افغانوں کی قیادت اور سر پرستی میں ایک ایسا امن عمل جو افغانستان کے سیاسی حقائق کو تسلیم کرتا ہے۔ وہی افغانستان میں پائیدار امن کا باعث بن سکتا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے 2018 میں صدر ٹرمپ کے اس خط کا بھی ذکر کیا جس میں انہوں نے افغانستان میں سیاسی تصفیے کی غرض سے اسلام آباد سے مدد طلب کی تھی۔
ان کے بقول اس وقت ہمیں صدر ٹرمپ کو یہ یقینی دہائی کرانے میں کوئی جھجک نہیں تھی کہ پاکستان اس مقصد کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان ایک آزاد، خود مختار اور متحد افغانستان کے لیے افغان عوام کی حمایت جاری رکھے گا۔
ان کے بقول پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ افغان امن عمل پر دباؤ کا عنصر نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے تمام فریقین پر تشدد کو کم کرنے پر بھی زور دیا۔
عبداللہ عبداللہ نے پیر کو اسلام آباد میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اس موقع پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عبداللہ عبداللہ کے دورہ سے دو طرفہ تعلقات کے نئے دور کے باب کا آغا ز ہو گا اور دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط ہوں گے ۔
افغانستان کی قومی مصالحت کونسل کے سربراہ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا کہ کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کے لیے ایک سازگار ماحول بن رہا ہے اور اس ماحول میں ان کےبقول ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا پاکستان کا یہ دورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی یہ خواہش اور کوشش ہے کہ ہم آگے بڑہیں او ر افغانستان کے ساتھ دیر پا تعلقات کی بنیاد رکھیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے بعد 12 ستمبر کو دوحہ میں شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرت افغانستان میں معاملات کو آگے بڑھانے کا سنہری موقع ہے۔
پاکستان اس بات کا مسلسل اعادہ کرتا آرہا ہے کہ افغانستان کے معاملہ کا کوئی عسکری حل نہیں ہے بلکہ اس مقصد کے حصوال کے لیے ایک سیاسی تصفیے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقو ل پاکستان نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی ہے اور اب افغان قیادت کو اپنا کردار اد کرنا ہے۔ انہیں امید ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوں گے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں سہولت کار کا کردار ادا ماضی میں بھی کیا ہے اور آئندہ بھی کرتارہے گا۔ ان کےمطابق پاکستان کے اس کردار کو دنیا نے سراہا ہے
وزیر خارجہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے تمام ادارے بشمول سول اور ملٹری کے افغانستان کے معاملے پر ایک صفحے پر ہیںاور افغانستان کی خود مختاری اور استحکام سے پاکستان کا قومی مفاد جڑا ہوا ہے اور اگر افغانستان خوشحال ہوگا تو پاکستان خوشحال ہوگا۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان اس بات کا خواہاں ہے کہ افغانستان میں ناصرف تشدد میں کمی ہو بلکہ جنگ بندی کی طرف پیش رفت بھی ہو۔
ان کےمطابق طالبان کے سیاسی کمیشن کے ساتھ اسلام آ باد میں ہونے والی بات چیت کے دوران انہوں نے طالبان کو یہ پیغام دیا کہ وہ آگے بڑھیں اور پاکستان صرف سہولت کار کردار ادا کر سکتا ہے۔ مستقبل قریب میں پاکستان کے مشیر تجارت رزاق داؤد افغانستان کا دورہ کریں گے اور افغان حکام سے دو طرفہ تجارت اور علاقائی رابطوں کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔