ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق، تہران کی ایک عدالت نے جمعرات کو امریکہ کی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ان ایرانی جوہری سائنس دانوں کے خاندانوں کو 4 ارب ڈالر سے زائد ادا کرے جو حالیہ برسوں میں ہدف بنا کر کیے گئے حملوں میں مارے گئے تھے۔
یہ فیصلہ جو بڑی حد تک علامتی حیثیت رکھتا ہے تہران کے تیزی سے آگے بڑھنے والے جوہری پروگرام پر ایران اور مغرب کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ظاہر کرتا ہے جب کہ تعطل کے شکار جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔
اگرچہ تہران گزشتہ ایک دہائی سے اسرائیل کو ایرانی جوہری سائنس دانوں کو نشانہ بنانے کے لیے انہیں قتل کرنے کاذمہ دار ٹہراتا رہا ہے، لیکن ایران نے اپنے اس اعلان میں اپنے سخت دشمن اسرائیل پر براہ راست الزام نہیں لگایاہے۔ ایران نے 1979 کے اس اسلامی انقلاب کے بعد سے،جس سے مغرب نواز بادشاہت کا خاتمہ ہوااور اسلام پسند اقتدار میں آ گئےِ اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
عدالت نے اسرائیل کا ذکر صرف یہ کہتے ہوئے کیا کہ امریکہ نے نشانہ بننے والوں کے خلاف اپنے "منظم جرم" میں "صیہونی حکومت" کی حمایت کی.
یہ واضح نہیں ہے کہ اس عدالتی فیصلے پر کیسے عمل درآمد ہو گا۔ امریکہ کے خلاف دیگر فیصلوں کی بھی ایک فہرست پہلے سے موجود ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں اور ایران کے اندر امریکہ کے کوئی اثاثے موجود نہیں ہیں۔
تاہم عدالت کی ایک شاخ نے جو ایران کی شکایات کا جائزہ لینے کے لیے مختص ہے، سابق صدور باراک اوباما، ڈونلڈ ٹرمپ، سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو، ایران کے لیے سابق مندوب برائن ہُک اور سابق وزیر دفاع ایشٹن کارٹر سمیت امریکہ کے 37 عہدیداروں کو سمن جاری کیے تھے۔
ٹرمپ نے 2018 میں جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی اور ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں تھیں جن میں سے زیادہ تر نے تیل سے حاصل ہونے والی اس کی آمدنی اور بین الاقوامی مالیاتی لین دین کو شدید متاثر کیا۔
صدر جو بائیڈن معاہدے کی بحالی چاہتے تھے، لیکن امریکہ کی جانب سے ایران کے نیم فوجی پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے بعد سے حالیہ ہفتوں میں بات چیت تعطل کا شکار ہے۔
اسی اثنا میں ایران یورینیم کی افزودگی کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی سطح پر لا رہا ہے جب سے بین الاقوامی نگرانی میں کمی آئی ہے۔ اس مہینے کے شروع میں، ایران نے اقوام متحدہ کی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے 27 نگرانی والے کیمرے ہٹا دیے تھے جب کہ ادارے کے ڈائریکٹر نے خبردار کیا تھا کہ اس سے جوہری معاہدے کو " انتہائی نقصان" پہنچ سکتا ہے۔
ملک کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے اطلاع دی تھی حملوں میں ہلاک ہونے والے تین جوہری سائنس دانوں کے خاندانوں نے، ایک حملے میں زخمی ہونے والے ایک جوہری سائنسدان کے ساتھ عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا۔
مقدمے کے فریق مدعی افراد کی شناخت نہیں بتائی گئی تھی۔اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے حکم دیا کہ امریکہ جرمانے سمیت مجموعی طور پر 4.3 بلین ڈالر معاوضہ ادا کرے۔
ایران نے دو سال قبل امریکہ کی جانب سے ایران کے اعلیٰ کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کے بدلے میں "دہشت گردی" اور "انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں" کے الزام میں ممتاز امریکی سیاسی اور فوجی عہدیداروں پر پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔
دریں اثناء جمعرات کو پاسداران انقلاب نے اپنے انٹیلی جنس شعبے کے سربراہ کو تبدیل کر دیا۔ مولوی حسین طیب کی جگہ پاسداران کے سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ جنرل محمد کاظمی لیں گے۔
یہ اقدام حالیہ ہفتوں میں پاسداران کے کئی افسران کی ہلاکت کے بعد کیا گیا ہے۔ طیب کو ایران میں 2009 کے انتخابات کے بعد ہونے والے ہنگاموں کے بعد سے اصلاحات کی حامی شخصیات کے خلاف سخت پالیسیوں کے لیے جانا جاتا تھا۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)