یورپی یونین کے متعدد ممالک نے تیل کی فراہمی بند کرنے کی اُس ایرانی دھکمی کو خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے جو ایرانی تیل پر عائد کردہ پابندیوں کے لاگو ہونے سے کئی ماہ قبل ہی اُنھیں دی گئی تھی، لیکن جس کو پہلے اُنھوں نے کوئی خاص اہمیت نہیں دی تھی۔
ایران نے اِس دھمکی کے ساتھ ہی، اپنے جوہری پروگرام پر مذاکرات کے دوبارہ آغاز کی پیشکش کی ہے۔ مگر کیا اِس پیشکش کا مطلب یہ ہے کہ یورپی یونین اور دیگر اقوام کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں کارگر ثابت ہو رہی ہیں، یا پھر ایران وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حالیہ دِنوں ایران اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے یورپ اور دیگردنیا کو مختلف پیغامات دے رہا ہے۔
بدھ کے روز ایران کے ٹیلی وژن نے صدر محمود احمدی نژاد کو ایک تحقیقی نوعیت کے جوہری ری ایکٹر میں ملکی سطح پر بنائی گئی ایندھن کی سلاخیں بھرنے کی نگرانی کرتے ہوئے دکھایا۔ ایران نے یورینیم کو افزودہ کرنے کے پروگرام میں پیش رفت حاصل ہونے کا بھی اعلان کیا ہے۔ تاہم، اِسی ہفتے یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ ایران یورپ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ اپنے جوہری پرگرام پر تعطل کے شکار مذاکرات کے دوبارہ آغاز پر رضا مند ہے۔
تاہم، ایران کی جانب سے تردید کے باوجود، بہت سے ملکوں کا یہ خیال ہے کہ ایران خفیہ طور پر اپنے جوہری پرگرام کو ایٹمی ہتھیار بنانے کے لئے استعمال کر رہا ہے، جس سے باز رکھنے کے لئے اقوام متحدہ ، امریکہ، اور یورپی یونین نے ایران مختلف النوع پابندیاں عائد کی ہیں۔
یورپین کونسل آن فارن افئیرز میں سینئر فیلو، نِک وٹنی کا کہنا ہے کہ تہران کی جانب سے بھیجے جانے والے اِن متضاد اشاروں کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ نک وٹنی کے الفاظ میں: ’اگر آپ مثبت سوچ رکھتے ہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایرانیوں کو واقعی تشویش لاحق ہے، اور اِنہیں ہونی بھی چاہئیے، کیونکہ اس سال کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے پابندیاں سخت ہوتی جائیں گی تو جو کچھ بیتے گا ، ایرانی اس کے لئےکچھ رعایت حاصل کرنے کی کوئی نہ کوئی راہ تلاش کر رہے ہیں‘۔
ایران کی پریشیانیوں میں صرف یورپی یونین اور امریکہ کی پابندیوں ہی نہیں ہیں ، بلکہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی مسلسل خبروں سے بھی وہ تشویش میں مبتلا ہے۔ وٹنی کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں، ایرانی دھمکیاں، عالمی طاقتوں کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہیں۔
وٹنی کہتے ہیں کہ اس کا ایک اور رُخ بھی ہو سکتا ہے ،اور وہ یہ کہ ایران ایٹم بم بنانا چاہتا ہے، اور مذاکرات کی پیشکش، وقت حاصل کرنے کا ایک بہا نا ہے۔
جوہری معاملے پر تعطل ختم کرنے کے لئے یورپی یونین سفارتکاری کی راہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ ایران کی اقتصادی اور تیل کی آمدن ختم کرنے کے لئے، یورپی یونین ایران پر پابندیوں کا دائرہ تنگ کرتی جا رہی ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے ایرانی تیل پر پابندیوں کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا۔ اگر ایران ابھی سے یورپی یونین کو تیل کی فراہمی بند کر دیتا ہے تو، یورپی یونین کی خاتون ترجمان نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ یورپی یونین کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ، ’اگر آپ یقینی فراہمی کی بات کرتے ہیں، تو ہم کہیں گے کہ تیل وہ جنس ہے جو عالمی منڈیوں میں عام دستیاب ہے۔ مجھے علم ہے کہ سعودی عرب پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ اپنی تیل کی پیداوار میں اضافہ کر دے گا۔ اس لئے رکن ملکوں کا کہنا ہے کہ وہ تیل کے حصول کے لئے کسی دوسری دوکان سے رجوع کریں گے‘۔
اِسی دوران، میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق، جیسے جیسے ایران کا سرمایہ کم ہوتا جائے گا، وہ خوراک کی بنیادی اجناس کے حصول کے لئے ، مال کے بدلے مال دینے پر اتر آئے گا۔ اس بارے میں تجزیہ کار نِک وٹنی کہتے ہیں کہ، ’ میرے خیال میں ایسا ہی ہو گا۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ پابندیوں کی وجہ سے ایران مذاکرات کی میز پر واپس آنا چاہتا ہے۔ اب، کیا وہ واقعی صحیح معنوں میںٕ مذاکرات کی میز پر بات چیت کے لئے آنا چاہتا ہے، تو اس بارے میں ہر شخص کی اپنی رائے ہے‘۔
یورپی یونین ایران کی جانب سے جوہری معاملات پر مذاکرات کی پیشکش کا جائزہ لے رہا ہے۔ یہ مذاکرات ایک سال پہلے تعطل میں پڑ گئے تھے ۔ تا ہم، وِٹنی کا کہنا ہے کہ یورپ تعطل کو ختم کرنے کے لئے مزید بات چیت کی بجائے دوسرے آپشن اور مزید پابندیاں بھی نظر میں رکھے ہوئے ہے۔