رسائی کے لنکس

’مراسلہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ قابلِ بھروسہ نہیں‘: ایران


فائل
فائل

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ 47 امریکی قانون سازوں کا یہ خط اپنی نوعیت کا واحد غیر سفارتی اقدام ہے، جو ہم پر یہ واضح کر رہا ہے کہ امریکہ پر اعتبار نہ کیا جائے۔

ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ امریکی ریپبلیکن سینیٹرز کی جانب سے تہران کو لکھے گئے خط میں صدر اوباما کے دورِ صدارت کے خاتمے پر ایران کے ساتھ ہونے والے مجوزہ نیوکلیئر معاہدے کو ختم کیے جانے کی دھکمی واضح کرتی ہے کہ، بقول اُن کے، ’امریکہ بھروسے کے قابل نہیں‘۔

ایرانی وزیر خارجہ نے یہ بیان منگل کو تہران میں دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ،’47 امریکی قانون سازوں کا یہ خط اپنی نوعیت کا واحد غیر سفارتی اقدام ہے، جو ہم پر یہ واضح کر رہا ہے کہ امریکہ پر اعتبار نہ کیا جائے‘۔

سینیٹرز کے اِس خط میں سوموار کو ایرانی حکام کو خبردار کیا گیا تھا کہ امریکہ کے ساتھ ہونے والا یہ معاہدہ صرف 2017ء تک کارآمد ہوگا، جب تک صدر اوباما اقتدار میں ہیں۔

دیگر ممالک کے ساتھ امریکی خارجہ امور عمومی طور پر صدر اور ان کی سفارتی ٹیم کی ذمہ داری ہوا کرتے ہیں۔ تاہم، قانون سازوں کے اس خط کو براہ راست صدارتی اختیارات میں مداخلت قرار دیا جارہا ہے۔

ریپبلیکن سینیٹرز کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے، صدر اوباما نے کہا ہے کہ شاید چند اراکین کانگریس ایرانی انتہاپسندوں کے مقاصد کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں، تب ہی وہ اس معاہدے کی مخالفت کر رہے ہیں--جو ایک غیرمعمولی اشتراک ہے۔

صدر کا کہنا تھا کہ دراصل وہ اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کوئی معاہدہ ہوتا بھی ہے یا نہیں؟ اگر ایک بار ہم نے کرلیا تو پھر یہ معاملہ امریکی عوام تک لے جائیں گے، اور یہ کہ اُنھیں یقین ہے کہ وہ اِس قابل ہیں کہ اِسے نافذ کرسکیں۔

اس سے پہلے، ایرانی وزیر خارجہ محمد ظریف نے کہا کہ ریپبلیکن خط کی کوئی قانونی حثیت نہیں۔ سوائے اس کےکہ یہ ایک پروپیگنڈہ ہے۔ اگر آنے والی امریکی حکومت ایران کے ساتھ کسی بھی معاہدے کو توڑتی ہے، تو یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔

ریپبلیکن نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ بات چیت کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کو اگر پارلیمنٹ سے منظور نہ کرایا گیا، تو اس کی حثیت اوباما اور ایرانی رہبر علیٰ، علی خامنائی کے درمیان طے پانے والے عہد و پیما سے زیادہ نہ ہوگی۔

چھتیس برس تک سینیٹر رہنے والے امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے بھی خط کو مستقبل کے امریکی صدور کی صلاحیتوں پر اعتراض قرار دیا اور کہا کہ یہ اس ادارے کے شایانِ شان نہیں اور یہ ایک خطرناک روایت ہے۔ یہ خط دنیا کو یہ اشارہ دے رہا ہے کہ امریکی ’کمانڈر انچیف‘ اپنی قوم کی جانب سے کسی عہد کا اختیار نہیں رکھتا۔ ساتھ ہی، انھوں نے ان سینیٹرز کی طرف سے بات چیت کے متبادل کوئی تجویز نہ دینے پر بھی تنقید کی۔

اِس سے پہلے، وائٹ ہاوٴس کے ترجمان، جوش ارنیسٹ نے اس اقدام کو ’حساس مذاکرات میں روڑے اٹکانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے، خط تحریر کرنے کے عمل پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرچکے تھے۔

XS
SM
MD
LG