واشنگٹن —
ایران اور چھ عالمی طاقتوں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ نومبر میں کیے جانے والے عبوری جوہری سمجھوتے پر عمل درآمد کیا جائے، جس کے شرائط پر اطلاق اگلے ہفتے سے ہو گا۔
اتوار کے روز ایرانی وزارتِ خارجہ کے اہل کاروں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ’20 جنوری سے جنیوا معاہدے پر عمل درآمد ہو گا۔‘
یورپی یونین کی پالیسی کی سربراہ، کیتھرین ایشٹن نے اِس تاریخ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فریقین اب اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی سے متعلق ادارے سے درخواست کریں گے کہ سمجھوتے پر عمل درآمد کی توثیق کرے۔
اتوار کے روز امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ تاوقتیکہ ایران اس سمجھوتے کی شرائط پر عمل پیرا ہونے پر ثابت قدم رہتا ہے، امریکہ اور دیگر ممالک ایران پر عائد معاشی تعزیرات میں ’مناسب نرمی‘ کریں گے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ جب تک ایران کے ساتھ طویل المدتی سمجھوتے کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات جاری ہیں، وہ امریکی کانگریس کی طرف سے ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کی کسی تجویو کو ویٹو کر دیں گے۔ تاہم امریکہ ایران کے خلاف تعزیرات میں اضافے کے لیے تیار رہے گا، اگر وہ کیے گئے سمجھوتے پر عمل درآمد میں ناکام رہتا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ ایران کے ساتھ حتمی سمجھوتے تک پہنچنے کی راہ میں حائل مشکلات کے بارے میں اُنھیں کوئی ’غلط فہمی‘ نہیں ہے۔
سمجھوتے کے تحت، ایران نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ وہ یورینیئم کی افژودگی کو پانچ فی صد تک کی سطح تک رکھے گا، جو عام طور پر بجلی بنانے کے لیے درکار ہوا کرتی ہے۔
اسی سمجھوتے کے تحت، ایران کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ یورینئم کی 20 فی صد افژودگی کو ترک کردے گا، جس کو تکنیکی طور پر جوہری ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؛ اور یہ کہ ایران 20 فی صد سطح والے اکٹھے کیے گئے یورینئم کے اسٹوریج کو تلف کر دے گا۔
بدلے میں ایران کے خلاف عائد معاشی تعزیرات میں چھ ماہ کے لیے نرمی کی جائے گی۔
اِس عرصے میں، چھ عالمی طاقتیں، یعنی برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکہ ایران کے ساتھ ایک مستقل معاہدے کے لیے مذاکرات جاری رکھیں گی۔
مغربی ممالک کو شبہ ہے کہ ایران بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اُس کا پروگرام خالصتاً بجلی بنانے اور دیگر سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
اتوار کے روز ایرانی وزارتِ خارجہ کے اہل کاروں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ’20 جنوری سے جنیوا معاہدے پر عمل درآمد ہو گا۔‘
یورپی یونین کی پالیسی کی سربراہ، کیتھرین ایشٹن نے اِس تاریخ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فریقین اب اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی سے متعلق ادارے سے درخواست کریں گے کہ سمجھوتے پر عمل درآمد کی توثیق کرے۔
اتوار کے روز امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ تاوقتیکہ ایران اس سمجھوتے کی شرائط پر عمل پیرا ہونے پر ثابت قدم رہتا ہے، امریکہ اور دیگر ممالک ایران پر عائد معاشی تعزیرات میں ’مناسب نرمی‘ کریں گے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ جب تک ایران کے ساتھ طویل المدتی سمجھوتے کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات جاری ہیں، وہ امریکی کانگریس کی طرف سے ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کی کسی تجویو کو ویٹو کر دیں گے۔ تاہم امریکہ ایران کے خلاف تعزیرات میں اضافے کے لیے تیار رہے گا، اگر وہ کیے گئے سمجھوتے پر عمل درآمد میں ناکام رہتا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ ایران کے ساتھ حتمی سمجھوتے تک پہنچنے کی راہ میں حائل مشکلات کے بارے میں اُنھیں کوئی ’غلط فہمی‘ نہیں ہے۔
سمجھوتے کے تحت، ایران نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ وہ یورینیئم کی افژودگی کو پانچ فی صد تک کی سطح تک رکھے گا، جو عام طور پر بجلی بنانے کے لیے درکار ہوا کرتی ہے۔
اسی سمجھوتے کے تحت، ایران کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ یورینئم کی 20 فی صد افژودگی کو ترک کردے گا، جس کو تکنیکی طور پر جوہری ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؛ اور یہ کہ ایران 20 فی صد سطح والے اکٹھے کیے گئے یورینئم کے اسٹوریج کو تلف کر دے گا۔
بدلے میں ایران کے خلاف عائد معاشی تعزیرات میں چھ ماہ کے لیے نرمی کی جائے گی۔
اِس عرصے میں، چھ عالمی طاقتیں، یعنی برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکہ ایران کے ساتھ ایک مستقل معاہدے کے لیے مذاکرات جاری رکھیں گی۔
مغربی ممالک کو شبہ ہے کہ ایران بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اُس کا پروگرام خالصتاً بجلی بنانے اور دیگر سویلین مقاصد کے لیے ہے۔