امریکہ اور ایران نے اطلاع دی ہے کہ پیر کے روز ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والے مذاکرات میں ’کچھ پیش رفت‘ ہوئی ہے۔ تاہم، اس معاملے پر سمجھوتے تک پہنچنا ابھی دور کا معاملہ ہے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ایران وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے درمیان جنیوا میں دوسرے روز ہونے والی بات چیت کے بارے میں دونوں فریق نے اِسے ’سنجیدہ، کارآمد اور تعمیری‘ قرار دیا۔
تاہم، ظریف نے ایران کے خبر رساں ادارے، فارس کو بتایا کہ ’حتمی سمجھوتے تک پہنچنے میں ابھی بہت عرصہ لگے گا‘۔
امریکی محکمہٴخارجہ کے ایک اعلیٰ اہل کار نے بتایا کہ حل طلب معاملات کا احاطہ کیا گیا، لیکن کیا سمجھوتا طے پا جائے گا، ’یہ وقت ہی بتائے گا‘۔
دونوں فریق کی کوشش ہے کہ معاہدے کے فریم ورک کے لیے مقرر کردہ 31 مارچ کی حتمی تاریخ کا پاس رکھا جائے گا، جب کہ یکم جولائی تک ایک مستقل سمجھوتا طے کیا جائے گا، جس میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ایران کی جوہری سرگرمیاں پُرامن مقاصد کے لیے ہیں، جس کے بدلے میں اُس پر مغربی ملکوں کی جانب سے عائد معاشی تعزیرات واپس لی جائیں گی، جن کے باعث ایران کی معیشت مشکل کا شکار ہے۔
اگلے پیر کو بات کا نیا دور سوٹزرلینڈ میں ہونے والا ہے۔
امریکہ اور پانچ دیگر عالمی ممالک اس امکان کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے کہ ایران جوہری ہتھیار تشکیل دے رہا ہے، جب کہ ایران کا کہنا ہے کہ اُس کا نیوکلیئر پروگرام سولین مقاصد کے لیے ہے۔
ایران اور برطانیہ، چین، فرانس، روس، جرمنی اور امریکہ کے درمیان مذاکرات اس بات پر مرکوز ہے کہ ایران کو یورینئیم کی کتنی مقدار افزودہ کرنے کی اجازت دی جائے، وہ کتنے سینٹری فیوجز چلا سکتا ہے اور ایران کے خلاف کتنی تیزی سے معاشی تعزیرات ختم کی جاسکتی ہیں۔
جنیوا میں ظریف اور کیری کی بات چیت میں، ایران کے جوہری ادارے کے سربراہ، علی اکبر صالحی اور توانائی سے متعلق امریکی وزیر، ارنیسٹ مونیز بھی شریک ہوئے۔
تہران میں، ایرانی صدر حسن روحانی نے اِسے امتنازی سلوک قرار دیا کہ دنیا کے نو ممالک جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جوہری صلاحیت کے مالک ہیں، وہ ایران کو اس گروپ سے باہر رکھنا چاہتے ہیں۔
کیری نے کہا ہے کہ مذاکرات میں شامل چھ ممالک متحد ہیں۔