ایران نے اپنے جوہری پروگرام سے متعلق ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کی ہے۔
آئی اے ای اے چاہتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے لیے تحقیق کرنے جیسے شکوک و شہبات پر توجہ دے۔ تہران ایسے شکوک و الزامات کو پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔
ہفتہ کو تہران میں شروع ہونے والی بات چیت ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب گزشتہ ماہ ہی ایک عبوری معاہدے کے تحت ایران پر عائد بعض پابندیاں نرم کی گئی تھیں۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کے بعض حصوں کو منجمد کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس معاہدے پر پر گزشتہ نومبر میں اتفاق کیا گیا تھا جس میں ایران سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں یورینیم کی افژودگی کو محدود کرے جو کہ مغرب کے مطابق ایٹمی ہتھیار بنانے کی غرض سے کی جارہی تھی۔ اس کے بدلے امریکہ اور یورپی یونین نے تہران پر اقتصادی پابندیاں نرم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
آئی اے ای اے چاہتا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کی شفافیت سے متعلق یقین دہانی کروائے اور ماضی میں جوہری ہتھیار بنانے کی کوششوں جیسے الزامات سے متعلق معلومات بھی فراہم کرے۔
ایران کے ساتھ ہونے والے عبوری معاہدے میں دنیا کی چھ بڑی طاقتیں یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی شامل تھیں۔
آئی اے ای اے چاہتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے لیے تحقیق کرنے جیسے شکوک و شہبات پر توجہ دے۔ تہران ایسے شکوک و الزامات کو پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔
ہفتہ کو تہران میں شروع ہونے والی بات چیت ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب گزشتہ ماہ ہی ایک عبوری معاہدے کے تحت ایران پر عائد بعض پابندیاں نرم کی گئی تھیں۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کے بعض حصوں کو منجمد کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس معاہدے پر پر گزشتہ نومبر میں اتفاق کیا گیا تھا جس میں ایران سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں یورینیم کی افژودگی کو محدود کرے جو کہ مغرب کے مطابق ایٹمی ہتھیار بنانے کی غرض سے کی جارہی تھی۔ اس کے بدلے امریکہ اور یورپی یونین نے تہران پر اقتصادی پابندیاں نرم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
آئی اے ای اے چاہتا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کی شفافیت سے متعلق یقین دہانی کروائے اور ماضی میں جوہری ہتھیار بنانے کی کوششوں جیسے الزامات سے متعلق معلومات بھی فراہم کرے۔
ایران کے ساتھ ہونے والے عبوری معاہدے میں دنیا کی چھ بڑی طاقتیں یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی شامل تھیں۔