ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے نمائندوں نے تہران کے جوہری پروگرام پر کسی حتمی معاہدے پر اتفاقِ رائے کے لیے ڈیڈ لائن میں چار ماہ کا اضافہ کردیا ہے۔
ایران، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین نے گزشتہ سال ایک عبوری معاہدے کے تحت ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر اپنے اختلافات دور کرنے کے لیے 20 جولائی کی ڈیڈلائن مقرر کی تھی۔
لیکن مذاکرات سے منسلک سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان اب بھی کئی امور پر قابلِ ذکر اختلافات برقرار ہیں جس کے باعث 20 جولائی تک کسی معاہدے پر اتفاق ممکن نہیں۔
ویانا میں جاری مذاکرات میں شریک ایک اعلیٰ ایرانی اہلکار نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں نے مزید چار ماہ تک مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کرلیا ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق مغربی ملکوں کے کئی سفارت کاروں نےبھی اس اتفاقِ رائے کی تصدیق کردی ہے ۔
گزشتہ چند ہفتوں سے اس طرح کی اطلاعات سامنے آرہی تھیں کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے نمائندے ایرانی جوہری پروگرام پر اپنے اختلافات دور نہیں کرسکے ہیں جس کے باعث اتوار کو ختم ہونے والے ڈیڈلائن سے قبل کسی معاہدے پر اتفاق مشکل ہے۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتیں ایران کو کم سطح تک یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت دینا چاہتی ہیں تاکہ اس یورینیم کے ہتھیاروں میں استعمال کا امکان ختم کیا جاسکے۔
عالمی طاقتوں کے نمائندوں کو ایران کی بعض جوہری تنصیبات میں جاری سرگرمیوں پر بھی تشویش ہےجسے ایران مسترد کرتا ہے۔
مغربی طاقتوں کا الزام رہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ایرانی حکومت کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سراسر پرامن ہے اور تحقیقی اور طبی مقاصد تک محدود ہے۔
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان عبوری معاہدہ نومبر 2013ء میں طے پایا تھا جس کے تحت ایران نے اپنی بعض جوہری سرگرمیاں معطل کردی تھیں جس کے جواب میں اس پر عائد بعض اقتصادی پابندیاں نرم کردی گئی تھیں۔
عبوری معاہدے کے تحت جوہری مذاکرات کے حالیہ سلسلے کا آغاز رواں سال فروری میں کیا گیا تھا جو تاحال جاری ہے۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ڈیڈلائن میں اضافے کے بعد مذاکرات کا اگلا دور ستمبر میں ہوگا جس میں فریقین اپنے اختلافات طے کرکے حتمی معاہدے پر اتفاقِ رائے کی کوشش کریں گے۔