ایران نے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جاری مظاہروں کی حمایت پر امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے بیان کی مذمت کی ہے۔
ایران میں اس وقت پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جب صدر حسن روحانی نے جمعے کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 50 فی صد اضافے کا اعلان کیا تھا جس کے فوری بعد ہی مختلف شہروں میں مظاہرین سڑکوں پر آگئے۔
مظاہرین نے کئی اہم شاہراہوں کو بند کر دیا جب کہ جلاؤ گھیراؤ کے دوران کئی بینک اور دکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ ہنگاموں کے دوران دو افراد ہلاک اور سیکڑوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
ایرانی حکومت نے مظاہروں پر قابو پانے اور مظاہرین کے درمیان رابطے روکنے کے لیے ملک بھر میں انٹر نیٹ سروس بھی معطل کر دی ہے۔
امریکہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اتوار کو ایران سے متعلق اپنا ایک پُرانا بیان جاری کیا اور اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ "تقریباً ایک سال پہلے میں نے ایران کے عوام کو کہا تھا کہ امریکہ ایران کے ساتھ ہے۔"
ایرانی وزارتِ خارجہ نے مائیک پومپیو کے اس بیان پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ مائیک پومپیو کا بیان مظاہرین کی حمایت کے مترادف ہے اور ایران اس طرح کے بیانات کی مذمت اور اسے اندرونی معاملات میں مداخلت سمجھتا ہے۔
ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ "ایران کے باشعور عوام اس طرح کے منافقانہ بیانات کو سمجھتے ہیں اور اس سے ان کی ہمدردیاں سمیٹی نہیں جاسکتیں۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ کی طرف سے ان لوگوں سے ہمدردیوں کا اظہار کیا جا رہا ہے جو پابندیوں کے باعث امریکہ کی 'معاشی دہشت گردی' کا شکار ہیں۔
عباسی موسوی نے مزید کہا کہ پُرتشدد مظاہرین اور مختلف گروہ جنہیں مائیک پومپیو جیسے لوگوں کی حمایت حاصل ہے وہ ایران کے باشعور عوام کو متاثر نہیں کرسکتے۔
ایران میں پیٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد اس کی نئی قیمت 15000 ریال یعنی تقریباً 13 سینٹ فی لٹر ہو گئی ہے۔ جو اب بھی دنیا بھر میں تیل کی کم ترین قیمتوں میں شامل ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ 2015 میں ہونے والے معاہدے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہتے ہوئے الگ ہو گئے تھے کہ یہ معاہدہ ایران کو جوہری سرگرمیوں سے روکنے میں ناکافی ہے۔ معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکہ نے ایران پر ماضی کے مقابلے میں سخت ترین اقتصادی پابندیاں لگا دی تھیں۔