ایران کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ رواں ہفتے شام کے بحران کا حل تلاش کرنے کی غرض سے ہونے والے بین الاقوامی مذاکرات میں شریک ہوگی۔
ایرانی ذرائع ابلاغ نے تہران میں وزارتِ خارجہ کی ایک ترجمان کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں ایرانی وفد وزیرِ خارجہ جواد ظریف کی قیادت میں حصہ لے گا۔
ترجمان کے مطابق ایرانی وفد میں تین نائب وزرائے خارجہ بھی شامل ہوں گے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران ان مذاکرات کو کتنی اہمیت دے رہا ہے۔
گزشتہ ساڑھے چار برسوں سے جاری شامی خانہ جنگی کے حل کے لیے اس سے قبل بھی بین الاقوامی مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہوگا کہ ان مذاکرات میں ایران کی نمائندگی بھی ہوگی جو خطے میں شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا سب سے قریبی اتحادی ہے۔
گزشتہ روز امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے عندیہ دیا تھا کہ برسلز میں ہونے والے مذاکرات میں ایرانی وفد کو شرکت کی دعوت دی جاسکتی ہے۔
ترجمان کے مطابق مذاکرات میں امریکی وفد وزیرِ خارجہ جان کیری کی قیادت میں شریک ہوگا جس میں ترجمان کے بقول شام کی "پیچیدہ سیاسی صورتِ حال" کے حل پر بات چیت ہوگی۔
سفارتی حلقوں کے مطابق باقاعدہ مذاکرات جمعے کو ہوں گے لیکن مذاکرات میں شریک ملکوں کے نمائندوں کے درمیان غیر رسمی بات چیت اور ملاقاتیں جمعرات کو شروع ہوجائیں گی۔
مذاکرات میں ترکی اور سعودی عرب سمیت شام کے پڑوسی ممالک اور عالمی طاقتوں کے وزرائے خارجہ شرکت کر رہے ہیں۔
روسی سفارت کاروں کے مطابق باقاعدہ مذاکرات سے قبل جمعرات کو امریکہ، روس، سعودی عرب اور ترکی کے وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت متوقع ہے جو ان ملکوں کے نمائندوں کےدرمیان گزشتہ ہفتے ہونے والی ملاقات کا تسلسل ہوگی۔
مذاکرات میں شرکت کے لیے ویانا روانگی سے قبل بدھ کو مسلسل دوسرے روز بھی ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ ٹیلی فون پر مشاورت کی۔
ایرانی اور روسی سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت ویانا میں ہونے والے مذاکرات کی تیاری سے متعلق تھی۔
ایران کی طرح روس بھی شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا حمایتی ہے جو ان کی حکومت کو فوجی مدد بھی فراہم کر رہا ہے۔
اس کے برعکس امریکہ اور اس کے اتحادی شامی حزبِ اختلاف کی معتدل مزاج جماعتوں اور باغی دھڑوں کی حمایت اور مدد کر رہے ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادی شامی حزبِ اختلاف کے اس موقف کی بارہا حمایت کرچکے ہیں کہ شامی بحران کے حل کے لیے تشکیل دیے جانے والے کسی بھی عبوری نظمِ حکومت میں صدر بشار الاسد کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔
لیکن رواں ماہ شام میں اسد حکومت کی حمایت میں روس کی کھلم کھلا فوجی مداخلت کے بعد یہ خدشات سر اٹھا رہے ہیں کہ شام کے بحران کی پیچیدگی امریکہ کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ بشار الاسد کو عبوری نظمِ حکومت میں کوئی جگہ نہ دینے کے اپنے موقف پر نظرِ ثانی کرلے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مغربی ملکوں کی جانب سے شام کے بحران پر عالمی مذاکرات میں پہلی بار ایران کو شرکت کی دعوت دینا اس خدشے کو تقویت دیتا ہے اور اسے شامی بحران سے متعلق روس اور ایران کے موقف کی فتح قرار دیا جاسکتا ہے۔
شام میں روسی فوجی مداخلت کے بعد بحران کے حل کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی سفارتی کوششوں میں تیزی آگئی ہے جس کا مقصد شام میں امریکہ اور روس کے درمیان کسی براہِ راست تصادم کو روکنا ہے۔
منگل کو فرانس میں بھی شام کے تنازع پر بین الاقوامی مذاکرات کا ایک دور ہوا تھا جس میں امریکہ، یورپ، اردن اور ترکی کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔
تاہم ان مذاکرات میں شامی حکومت کےا تحادیوں – روس اور ایران - کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔